الأربعاء، 16 مايو 2012

وہ کون اٹھا کہ



یہ کون اٹھا کہ

تحرير۔۔۔۔۔۔:مجيب الرحمن سياف

موت ایک ايسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہيں ايسا امر ہے جس سے کسی کے ليے جا ئے فرار نہيں جس ميں ادنیٰ کی تميز نہ اعلیٰ کاپاس چھو ٹے پر ترس نہ بڑے کا لحاظ جو وقت ديکھتی ہے نہ وقت کی ضرورت بس ايسا وار ہے جس کی زد ميں ان گنت مخلوقات بے شمار جن و بشر آ چکے اور يہ مسلسل اپنے آہنی پنجوں سے مخلوقات کودبوچتی چلی جارہی ہے ،دن رات خبریں ہرسواعلانات کسی نہ کسی کے اس دارفناء سے اٹھنے کے سلسلہ میں پڑھنے اورسننے کوملتے ہیں ۔
ہاں!26فروری کی صبح ایک ایسی ہی خبرمیرے موبائل فون پرمیسج کی صورت میں موصو ل ہوئی کہ محدث العصر،مجتہدمطلق ،فقیہ دوراں،نمونہ سلف،ولی کامل ،متبع سنت ، حضرت العلام حافظ عبدالمنان نورپوری انتقال کرچکے ہیں ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
یہ خبرجنگل میں آگ کی طرح پھیلی یہ خبرسننے اورپڑھنے کے بعدآنکھیں کھلی ہونے کے باوجودچہارسواندھیراہی اندھیرا چھاتا محسوس ہونے لگاکہ مرجع خلائق ،عالم متبحر،علوم وفنون جس کے گھرکی باندیاں ،صدق وصفاکاپیکر،حسن اخلاق کامجسمہ جس کاقول وعمل دین حق کی دعوت ،جوزہدوتقویٰ میں بے مثل ،جوجبل الحفظ ،بروقت استحضارکی صفت سے متصف،فرق باطلہ کے لیے قاطع تلوار،اپنے مدلل اورمسکت جواب سے مدمقابل کولاجوا ب کرنے کی قدرت رکھنے والااورمستجاب الدعوات چہرہ شایداپنی آنکھوں سے پھرنہ دیکھ سکوں۔
ہاں !قحط الرجال کے دورمیں ایسے افرادکااٹھ جانایقینا ناقابل تلافی نقصان ہے مگررضاء الہٰی سمجھ کراسے قبول کئے بغیربھی کوئی چارہ نہیں ۔جب کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا فورا استاذی المکرم حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کی طر ف رجوع کرلیا جاتا جس کا کافی وشافی جواب ملنے پردل کواطمینان ہوجاتا۔میں نے استاذی المکرم حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ سے ٢٠٠٣ء میں جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں تفسیرالقرآن الکریم ،ـصحیح بخاری جلددوم،تفسیرنیل المرام اوربدایۃ المجتہدپڑھیں۔آپ علیہ الرحمۃ ایک کہنہ مشق استاداورمشفق مربی بھی تھے۔طلبہ کی تعلیم وتربیت پرآپ کی خصوصی نظرہوتی آپ کی یہ کوشش ہوتی کہ طلبہ عبارت پڑھنے میں مہارت،احکام ومسائل میں پختگی حاصل کریں اس کے لیے آپ طلبہ میں مختلف طریقوں سے ذوق مطالعہ پیداکرنے کی کوشش کرتے ۔
ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے ۔ایک مرتبہ کلاس میں تفسیرالقرآن کے درس میں بات چل نکلی کہ بے نماز کافرہے آپ نے دلائل دیئے اورفرمانے لگے کہ میں سعودی عرب زیارت حرمین کے لیے گیاوہاں ایک عرب عالم کے حلقہ درس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوااسی مجلس میں ایک سوال کیاگیاکہ بے نمازکاکیاحکم ہے ؟عرب عالم نے جواب دیا''
کافریقتل''بے نماز کافرہے اسے قتل کردیاجائے ۔اس پرراقم نے اپنے قریب بیٹھے ساتھی کے کان میں حدیث پڑھی ''من قال لاالہ الااللہ دخل الجنۃ ''استادمحترم نے سن لیافرمانے لگے کہ کل اس کے بارے میں اچھی طرح پڑھ کرآنا۔اگلے دن دوران کلاس فرمانے لگے کہ مولاناکچھ سمجھ آئی؟میں نے کہاجی!فرمانے لگے کیاسمجھ آئی ہے میں نے پھرحدیث کااگلاحصہ پڑھا''مستیقنابھاقلبہ ''فرمانے لگے ٹھیک ہے ۔
آپ علیہ الرحمۃ حلم وبردباری اورشفقت میں بھی اپناثانی نہیں رکھتے تھے ۔ایک دفعہ کلاس میں کراچی کے ایک طالبعلم ابرارشاہ نے کلاس میں حضرت الاستاذسے گستاخانہ رویہ اختیارکیاانتظامیہ کوخبرہوئی انہوں نے طالب علم کوجامعہ سے خارج کرنے کافیصلہ سنایالیکن جب یہ خبرحافظ صاحب کوہوئی فرمانے لگے میں تواس سے ناراض نہیں ہوں لہذاپھراسے کلاس میں بٹھالیاگیا۔یہ آپ علیہ الرحمہ کی کمال شفقت اورعفوودرگزرکی اعلیٰ مثال ہے ۔
آپ علیہ الرحمۃ محسن ومشفق بھی تھے لیکن سنت کے مخالفین کے لیے سختی کاپہلواختیارفرماتے ۔ہماری کلاس میں چندایسے طلبہ تھے جوڈاڑھی کتراتے تھے ۔حافظ صاحب نے انہیں کلاس سے نکال دیااورفرمایاجب تک توبہ نہیں کروگے ،ڈاڑھی کومعاف کرنے کاعہدنہیں کرتے ہوتب تک میری کلاس میں نہیں بیٹھ سکتے ۔جب طلبہ نے ڈاڑھی کومعاف کرنے کاعہدکیا تب آپ نے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی ۔
آئيے چلتے چلتے ایک دومثالیں آپ کے رسوخ فی العلم کی بھی دیتے چلیں۔بحرالعلوم شیخ الحدیث والتفسیرمولاناعبداللہ صاحب  رحمہ اللہ سرپرست اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث بانی ومہتمم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ پاکستان فرمایاکرتے تھے کہ میرے ساتھ کسی مسئلہ میں کوئی بھی گفتگونہیں کرسکتاسوائے حافظ عبدالمنان کے ۔
میرے سامنے ''عزم طلبہ ''کاپہلاشمارہ ہے اوراس کامضمون عربی زبان کی اہمیت صفحہ ١٨پراستاذالعلماء مولاناخالد بن بشیرمرجالوی  حفظہ اللہ(جوکہ اس وقت استادمحترم حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کی جگہ تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اورآپ علیہ الرحمۃ کے ہونہارشاگردوںمیں سے ہیں )لکھتے ہیں:
''خودہمارے ملک میں بحمداللہ کئی اہل علم اورشیوخ ایسے موجودہیں جنہوں نے یہاں رہ کرتعلیم حاصل کی لیکن ان کی عربی دانی پرعرب لوگ حیران وششدرہیں مثال کے طورپرہمارے شیخ محترم حافظ عبدالمنان نورپوری جامعہ محمدیہ اہل حدیث گوجرانوالہ کے خریج ہیں اورآپ کے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی جامعہ والوں نے آپ کومدرس بھی رکھ لیاتھااورتاحال وہاں ہی پڑھارہے ہیں صحیح بخاری پرآپ کی عربی تالیف ''ارشادالقاری الیٰ نقدفیض الباری''حنفی عالم مولاناانورشاہ کاشمیری کی کتاب ''فیض الباری''کے جواب میں ہے ۔میں اس وقت الریاض میں قاری محمدابراہیم بلو چ حفظہ اللہ کی بیٹھک میں تھاکہ ملک شام کے بلندپایہ عالم دین اورشیخ البانی  رحمہ اللہ کے شاگردرشیدشیخ محمدعیدالعباسی جوکہ قاری صاحب کے پڑوس میں رہتے تھے تشریف لائے الماری میں موجودکتابوں کودیکھنے لگے اب ارشادالقاری کی ایک جلدان کے ہاتھ میں تھی میں نے انہیں بتایاکہ یہ ہمارے شیخ کی کتاب ہے کتاب کومختلف مقامات سے دیکھافرمانے لگے :''الشیخ متقن فی اللغۃ ''شیخ عربی میں مضبوط ،ماہرہیں ۔بعض دقیق عبارات کے بارے میں کہنے لگے کہ ان کی ضرورت نہیں تھی میں نے عرض کی ہمارے شیخ دکتورعبدالرحمن الفوزان نے ہمیں بتایاکہ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ کی کتابیں پڑھوتووہ کافی دقیق ہیں جبکہ محمدبن عبدالوہاب  رحمہ اللہ کی کتابیں سہل ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ کے مدمقابل ایسے لوگ تھے جن کاجواب انہوں نے انہی کی زبان میں دیاہے جب کہ محمدبن عبدالوہاب  رحمہ اللہ کے مخاطب عام سادہ لوح بدولوگ تھے ۔توچونکہ فیض الباری میں ایسی ابحاث ہیں لہذاجواب بھی اسی انداز سے دیاگیاہے ۔''
استاذی المکرم نورپوری صاحب  رحمہ اللہ اسی کتاب ارشاد القاری میں احناف کے جیدعالم مولاناانورشاہ کاشمیری پرنقدکرتے ہوئے آپ نے سینکڑوں لغت کی اغلاط کی نشاندہی فرمائی ہے جوآپ کے راسخ فی العلم ہونے کی بین دلیل ہے ۔
لکھنے والے توبہت کچھ اپنے اپنے علم کے مطابق صفحہ قرطاس کے حوالے کرچکے ہیں اوربہت سے اہل قلم کتابی صورت میں کریں گے ایک شاگردہونے کی حیثیت سے چندباتیں زیرنوک قلم لایاہوں تاکہ میرانام بھی یوسف کے خریداروں میں شامل ہوجائے ۔
آپ علیہ الرحمۃ کی زندگی پاکیزہ تھی ،معصیت سے کوسوں دور،شکوک وشبہات سے ہمیشہ دامن بچائے رکھتے اگریوں کہہ دیاجائے کہ آپ فرشتہ صفت انسان تھے تویہ بھی مبالغہ نہ ہوگا۔آپ فقیدالمثال ،وحید العصر اور علماء عصر میں سے ممتاز تھے پارسائی والی زندگی گزارکے جب ر اہی عدم ہوئے توہرآنکھ اشکبار،ہردل غمزدہ ،ہرچہرہ مرجھایاہواتھاکہ آج ہمارامحبوب ،ہمارارونق محفل ہمیں داغ مفارقت دے کرچل بساہے جنازے کامنظرایساتھاکہ شورش کاشمیری کی نظم کاایک حصہ یادآیاجوانہوں نے امام الہندابوالکلام آزادکے بارے میں کہی تھی:
یہ کون اٹھاکہ دیر وکعبہ شکستہ دل خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنے عوام پہنچے
تیری لحد پہ خدا کی رحمت تیری لحد کو سلام پہنچے

بلاامتیاز ہرفرقہ کے لوگ آپ کے جنازے میں شریک ہوئے جناح پارک بالمقابل جامعہ محمدیہ اپنی وسعت کے باوجودتنگ پڑگیاپارک کے تین اطراف لنک روڈ دائیں طر ف جامعہ محمدیہ کی وسیع گراؤنڈ،بائیں طرف مرکزابن عباس جوکہ مولاناعبداللہ نثارصاحب کے زیرنگرانی چل رہاہے ۔اسی طرح مسجدعائشہ پارک کی بائیں جانب بریلوی مکتب فکرکی ہے سب جگہیں پرتھیں پارک کے سامنے جی ٹی روڈاوراس کے پارمشرق کی جانب بھی لوگوں کی صفیں تھیں لوگوں کااس قدرہجوم حضرت الاستاذرحمہ اللہ کی اللہ کے ہاں اوربندوںمیں مقبولیت کامنہ بولتاثبوت ہے ۔
اللھم اغفرلہ ولنایارب العالمین وارفع درجتہ فی المھدیین وادخلہ الجنۃ مع الصلحاء والنبیین ..آمین یارب العالمین



ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق