روشن آفتاب
کی چند کرنیں
تحرير:
عبدالوحیدساجد
من شاء بعدک
فلیمت
فعلیک کنت
احاذر
موت ایک اٹل حقیقت ہے فوت شدہ شخص کے ساتھ جس کاجس قدرگہراتعلق ہوتاہے وہ اتناہی اس صدمے سے متاثرہوتاہے دکھ اورغم کی شدت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے ۔تعلق ایک جہت سے ہوتورنج وحزن بھی یک جہتی ہوگااگرجہات تعلق متعددہوں گی توصدمہ بھی کئی جہتی ہوگا۔ویسے تواستاذوبھائی حافظ نورپوری رحمہ اللہ کی وفات سے ہرشخص غم کاشکارہے جوآپ کی علمی دینی خدمات ،خطوط ورسائل ،مکالمات ،مناظرہ جات اوردروس وخطبات کے ذریعے نصف صدی سے زیادہ کی زندگی سے ذرہ سابھی واقف ہے ۔آپ نے جوزندگی گزاری وہ قابل رشک ہے ۔بچپن نہایت صاف ستھرا اورالائشوں سے پاک ،دوران تعلیم تمام علوم وفنو ن میں مہارت تامہ حاصل کی ،زہدوتقویٰ اورشب بیداری کواپناشعاربنایا،اساتذہ کاغایت درجہ احترام کیا،نفاست وطہارت اورمستقل مزاجی میں اپنی مثال آ پ تھے ۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعدپوری زندگی پڑھنے پڑھانے ،لکھنے اوردعوت وتبلیغ میں صرف کی ۔
اسلامی علوم وفنون میں یگانہ روزگارہونے کی وجہ سے مرجع کی حیثیت اختیارکرچکے تھے ۔خشیت الہٰی سے سرشارقرآن کریم کومحبت کے ساتھ بکثرت تلاوت کرتے ۔آپ راقم الحروف کے صرف استادنہیں بلکہ ماموں زادبھائی ،بہنوئی ،محسن ومربی بھی ہیں ،میرے ساتھ محبت کایہ عالم تھااگرایک دن میں فون نہ کرتاتودوسرے دن وہ خودفون کرتے اگردوچاردن گزرجاتے ملاقات نہ ہوتی توگھرکہتے اس کوبلاؤ وہ آیانہیں ہے ۔پہلی دفعہ میں جب سعودی عرب گیاتوخودمجھے ائرپورٹ چھوڑنے گئے جب میں جہاز میں بیٹھ گیاتوواپس تشریف لائے ۔آج راقم کی ان کی جدائی میں حالت یہ ہے ۔
کانی
ولوکنت امرأفی عشیرتی
لفقدک یاخیرالشیوخ غریب
ولوعشت لی لم اختشع من مصیبة
تکون اذاکانت سواک تصیب
لفقدک یاخیرالشیوخ غریب
ولوعشت لی لم اختشع من مصیبة
تکون اذاکانت سواک تصیب
وکنت اریٰ انی اذاغبت میت
ولوکنت یومایاحبیبی تغیب
ولوکنت یومایاحبیبی تغیب
بقیا ت آجال الیھا انتھا ء نا
بقینا علیھانفتدی ونؤوب
بقینا علیھانفتدی ونؤوب
مواقیت لاتدنی بغیضا لبغضہ
لموت ولایحی الحبیب حبیب
لموت ولایحی الحبیب حبیب
تفرق مابین الحبیب وحبہ
مضاجع قدحطت لھن جنوب
مضاجع قدحطت لھن جنوب
حافظ صاحب جب شادی کے بعدہمارے گھرتشریف لاتے تودستک دے کرتھوڑاپیچھے ہوجاتے دروازہ کھلتاتودیکھتے آپ قرآن مجیدکی تلاوت کررہے ہیں ۔
حافظ
صاحب رحمہ اللہ کوپیغمبرنبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم سے والھانہ محبت تھی ،راقم
ایک مرتبہ آپ کے گھرحاضرہواآپ اپنی مسندپرتشریف فرماتھے ہاتھوںمیں غالباحافظ ابن
قیم رحمہ اللہ کی کتاب زادلمعادیااعلام
الموقعین تھی آپ زاروقطاررورہے تھے میں نے صبرکرنے کاکہاتسلی دی چپ ہوئے تورونے
کاسبب پوچھافرمایاکچھ نہیں ۔
میرے
بارباراصرارکرنے پرفرمایاوعدہ کروکسی سے ذکرنہیں کروگے میں نے عرض کیاجی ٹھیک ہے
۔توفرمایاکہ مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ
وسلم کی وفات یادآئی جس کے غم سے آنسوبہہ نکلے ۔آپ کی پرہیزگاری اورتقویٰ کایہ
عالم تھاکہ شبہات سے بھی کوسوں دوررہتے ۔غالبا١٩٧٣ء یا١٩٧٤ء کی بات ہے جامعہ میں گوشت
بہت زیاد جمع ہو گیا تھاتعطیلات کی وجہ سے طلباء کی تعدادکم تھی قاضی عبدالرزاق
صاحب مرحوم نے مجھے تازہ گوشت دیااورکہایہ حافظ صاحب کے گھرلے جاؤ میں گوشت لے کرگھرآیادروازہ
کھٹکھٹایادروازہ آپ نے ہی کھولااورپوچھایہ کیاہے ۔؟میں نے بتایاتوفرمانے لگے : ''جتھوں
تے جدے کولوں لے کے آیاایں اونوں اوتھے جاکے واپس کر, تے آئندہ اے کم نہ کریں '' یعنی جہاں سے اورجس سے یہ لے کرآئے ہو اس کووہیں واپس
کردواورآئندہ یہ کام نہ کرنامجھے دروازے سے اندرنہیں جانے دیا۔
ایک
دفعہ آپ رحمہ اللہ نے مجھے کہاکچھ کتابیں
ہیں بازارسے خریدکرلاؤیہ اس وقت کی بات ہے جب آپ کی تقرری جامع مسجدمحمدیہ نیائیں چوک
میں کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی ،فرمایاکتابیں بڑی مسجدمیں خادم کودے دینامیں اس سے لے
کرصبح گھرآجاؤں گا۔چندمنٹوں کے بعدمجھے فون کیاکہ کتابیں تم نے خودلے کرمیرے
گھرآناہے ۔مسجدمیں کسی کے حوالے نہیں کرنی ہیں چنانچہ میں نے سارے کام
چھوڑکرکتابیں لیں اورآپ کے گھرپہنچ گیا۔ملاقات کے بعدمیں نے عرض کیامیں اگرکتابیں
مسجدمیں دے دیدیتاتوکیاحرج تھامیراچکربچ جاتاآ پ نے صبح لے ہی لینی تھیں فرمایا:''لوکاں دیاں گلاں کولوں وی بچناچاہی دااے کہ
مسیت دیاں کتاباں مولوی گھرلئی جاندااے ''کہ لوگوں کی
باتوں سے بچناچاہےے مسجدکی کتابیں مولوی گھرلے جارہاہے ۔
آ
پ علیہ الرحمۃ کے زہدوورع اورقناعت کایہ عالم تھاکہ آپ نے کبھی اپنی تنخواہ میں
اضافے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، جب کبھی دیگر اساتذہ کی طرف سے تنخواہ میں اضافے کا
مطالبہ کیا جاتا تو آپ اس میں اپنا نام نہ لکھنے دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک دفعہ
حافظ صاحب رحمہ اللہ نے بتایا کہ ایک
مرتبہ اساتذہ کی طرف سے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا تو میں نے اس میں اپنا
نام لکھنے سے انکار کر دیا، جب دیگر اساتذہ کی طرف سے مجھ پر مطالبے میں شمولیت کے
لیے دباؤ ڈالا گیا اور انھوں نے اصرار کیا تو میں نے انھیں یہ سبب بیان کیا کہ میں
نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ میں کبھی کسی سے روپے پیسے کا مطالبہ نہیں کروں گا،
اس لیے میں اس مطالبے میں شامل نہیں ہوسکتا۔
حافظ
صاحب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعد ازاں
انتظامیہ مدرسہ نے اساتذہ کا مطالبہ منظور کر لیا اور سب کی تنخواہ بڑھا دی اور
دیگر اساتذہ کے ساتھ میری تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا۔ لیکن تنخواہ ملنے سے قبل
ہی مدرسے کے ایک بڑے استاذ میرے پاس آئے اور مجھے ملامت کرنے لگے کہ آپ ہمارے ساتھ
اضافے کے مطالبے میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن اضافہ ہونے پر آپ اسے قبول کرنے کے
لیے تیار ہیں۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ میں اس وقت تو خاموش رہا، لیکن جب تنخواہ ملی تو میں
تنخواہ لے کر ان کے پاس گیا اور کہا کہ میری تنخواہ میں جو اضافہ ہوا ہے وہ آپ لے
لیں، کیونکہ میں آپ کے ساتھ اضافے کے مطالبے میں شریک نہیں ہوا تھا۔ یہ سن کر وہ
بڑے شرمسار ہوئے اور انھوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔
تقویٰ
کا ےہ عالم تھا کہ جب آپ کودل کی تکلیف ہوئی تواینجیوپلاسٹی کے لیے
لاہورڈاکٹرزہسپتال لے گئے توفرمایاکوئی نرس میرے کمرے میں میرے قریب نہ آئے تومیں اینجیوپلاسٹی
کرواؤں گاچنانچہ یہ بات ڈاکٹرصاحب سے طے پاگئی توآپ اینجیوپلاسٹی کے لیے تیارہوگئے
۔
اپنے
اساتذہ کااحترام توان میں کوٹ کوٹ کربھراہواتھاکسی استاذ کے بارے میں کوئی تبصرہ
سنناگوارہ نہ کرتے تھے ۔آپ کے اساتذہ بھی آپ پرخوش تھے بڑی محبت اورشفقت سے پیش
آتے کبھی سرزنش کی نوبت پیش نہ آتی ۔استادکے احترام کی وجہ سے ڈانٹ ڈپٹ برداشت نہ
کرپاتے ۔جیساکہ اس واقعہ سے عیاں ہے ۔دال بازارکی جامع مسجدمیں آپ کچھ دیرخطابت کے
فرائض سرانجام دیتے رہے یہ مسجداس وقت محکمہ اوقاف کے انڈرتھی خطیب کی تنخواہ
محکمہ اوقاف کی طرف سے آتی تھی ۔حافظ صاحب
رحمہ اللہ نے خطابت چھوڑ دی آپ کی جگہ کوئی اورخطابت کرنے لگے محکمہ والوں کوپتہ
چلاتوانہوں نے تنخواہ روک لی دوسرے خطیب
کونہ دی حافظ صاحب سے پوچھاگیاتوانہوں نے صاف بتادیاکہ میں وہاں خطابت نہیں کرتا۔
ایک روز صبح صبح شیخ الحدیث
والتفسیرمولاناعبداللہ صاحب رحمہ اللہ سرفرازکالونی
میں تشریف لائے حافظ صاحب رحمہ اللہ اس
وقت سیالکوٹیوں کے مکان میں کرایہ پررہتے تھے مولاناعبداللہ صاحب کے ساتھ ایک
اورآدمی بھی تھادونوں سکوٹر(ویسپا)پرتھے دروازے پردستک دی دیکھاتواستادمحترم تھے
حسب عادت اندرتشریف لانے کاکہاشیخ عبداللہ
رحمہ اللہ نے فرمایایہیں بات کرتے ہیں پھراوقاف کی طرف سے تنخواہ کے حوالے
سے بات کی شیخ اوراستاد رحمہ اللہ نے
ذراغصے میں فرمایاتم نے یہ کیوں کہا؟بس پھرکیاتھاحافظ صاحب رحمہ اللہ دھڑام سے نیچے گرے اوربے ہوش ہوگئے
مولانااوروہ ساتھی فوراواپس چلے آئے ۔استادمحترم کی اتنی سی بھی جھڑک برداشت نہیں کرسکے
۔
آپ
بڑے صابروشاکراورقناعت پسندتھے سرفرازکالونی میں رہائش کرنے سے پہلے آپ جامعہ میں ہی
رہتے تھے عموماجواساتذہ جامعہ میں رہتے ان کے کھانے وغیرہ کی خدمت طلباء ہی
سرانجام دیاکرتے تھے ۔آپ کے کھانے کی ذمہ داری بھی ایک طالب کی تھی تعلیمی سال کی
ابتداء تھی وہ طالب علم آپ کوکھانادینابھول گیاپورے دودن اس نے حافظ صاحب رحمہ اللہ کوکھانانہیں دیانہ ہی آپ نے طلب
کیادونوں دن پانی پی کرگزارہ کیانہ کسی سے شکوہ کیااورنہ طالب علم کی ڈانٹ ڈپٹ کی
جب اس کویادآیاوہ بہت پریشان ہواکھانالے کرآیااورمعذرت کی اورندامت کااظہارکیاتوآپ
نے فرمایاکوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہوں۔
آپ
اپنے والدگرامی قدرجناب عبدالحق مرحوم کابڑااحترام کرتے اطاعت اورخدمت میں پیش پیش
ہوتے ۔ایک مرتبہ بیمارہوگئے چارپائی پرلیٹے ہوئے تھے اورروتے جارہے تھے ہم نے
سمجھاشایدبیماری کی وجہ سے پریشان ہیںاوررورہے ہیں چنانچہ ہم نے پوچھاتووالدمحترم
کی طرف اشارہ کرکے فرمایاان کی خدمت کرناتومیراحق ہے لیکن میں ان سے (بوجہ بیماری
)خدمت لے رہاہوں۔
آپ صاف گوتھے اگرچہ بظاہراس سے نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ایک دن مغرب سے پہلے ہمارے گھرتشریف لائے اورنماز مغرب سے فراغت کے بعدفرمایا:آج دال بازارمسجدمیں راناشمشاداحمدسلفی حفظہ اللہ کاخطاب ہے میں نے بھی جاناہے راقم کے بڑے بھائی حاجی عطاء اللہ مرحوم کے پاس ہنڈا(٧٠)تھامجھے انہوں نے کہاجاؤ گاڑی لے لواور انکوساتھ لے جاؤ۔میری عمرچھوٹی تھی نہ لائسینس تھااورنہ ہی شناختی کارڈ۔راناصاحب کے خطاب سے فراغت کے بعدرات بارہ بجے کے قریب ہم واپس آرہے تھے ،چوک پونڈانوالہ پہنچے تووہاںمجسٹریٹ نے ناکہ لگارکھاتھاپولیس والے نے ٹارچ کے ذریعے ہمیںروکاحافظ صاحب پیچھے پولیس والے کے پاس رک گئے میں گاڑی آگے مجسٹریٹ کے قریب لے آیا۔
مجسٹریٹ نے مجھ سے گاڑی کے کاغذات اورلائسنس پوچھامیں نے بتایاکہ گاڑی کے کاغذات تومکمل ہیں مگرمیرالائسنس نہیں بنا کیونکہ شناختی کارڈ نہیں بنااس نے مجھ سے پوچھاکہاں سے آرہے ہو؟میںنے بتایاکہ درس قرآن کاایک پروگرام تھاوہ سن کرآرہے ہیں ۔اس نے مجھ سے لائسنس بنوانے کاکہامیری معذرت پراس نے ہمیں کہاآپ چلے جائیں ۔جب ہم گھرپہنچے حافظ صاحب رحمہ اللہ نے پوچھامجسٹریٹ نے کیاکہاتھا؟میں نے بتادیاتوفرمایاکہ مجھے بھی پولیس والا کچھ کہتاتھامیں نے عرض کی کیاکہتاتھا؟فرمانے لگے ''آنداسی مولوی جی کوئی گل بات نئی تے دسو''ہم نے کہاتوآپ نے کیاجواب دیافرمانے لگے ''میں کی آکھناں سی میں کہیاجے کوئی گل بات نہیں تے اینوںاندردیوسوں '' ہم خوب ہنسے اورکہاآپ توچھوٹے ہوؤ ں کوبھی پکڑوانے لگے تھے ۔گویاکہ پولیس والے نے رشوت مانگی تواسے کھری کھری سنادی ۔
آپ صاف گوتھے اگرچہ بظاہراس سے نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ایک دن مغرب سے پہلے ہمارے گھرتشریف لائے اورنماز مغرب سے فراغت کے بعدفرمایا:آج دال بازارمسجدمیں راناشمشاداحمدسلفی حفظہ اللہ کاخطاب ہے میں نے بھی جاناہے راقم کے بڑے بھائی حاجی عطاء اللہ مرحوم کے پاس ہنڈا(٧٠)تھامجھے انہوں نے کہاجاؤ گاڑی لے لواور انکوساتھ لے جاؤ۔میری عمرچھوٹی تھی نہ لائسینس تھااورنہ ہی شناختی کارڈ۔راناصاحب کے خطاب سے فراغت کے بعدرات بارہ بجے کے قریب ہم واپس آرہے تھے ،چوک پونڈانوالہ پہنچے تووہاںمجسٹریٹ نے ناکہ لگارکھاتھاپولیس والے نے ٹارچ کے ذریعے ہمیںروکاحافظ صاحب پیچھے پولیس والے کے پاس رک گئے میں گاڑی آگے مجسٹریٹ کے قریب لے آیا۔
مجسٹریٹ نے مجھ سے گاڑی کے کاغذات اورلائسنس پوچھامیں نے بتایاکہ گاڑی کے کاغذات تومکمل ہیں مگرمیرالائسنس نہیں بنا کیونکہ شناختی کارڈ نہیں بنااس نے مجھ سے پوچھاکہاں سے آرہے ہو؟میںنے بتایاکہ درس قرآن کاایک پروگرام تھاوہ سن کرآرہے ہیں ۔اس نے مجھ سے لائسنس بنوانے کاکہامیری معذرت پراس نے ہمیں کہاآپ چلے جائیں ۔جب ہم گھرپہنچے حافظ صاحب رحمہ اللہ نے پوچھامجسٹریٹ نے کیاکہاتھا؟میں نے بتادیاتوفرمایاکہ مجھے بھی پولیس والا کچھ کہتاتھامیں نے عرض کی کیاکہتاتھا؟فرمانے لگے ''آنداسی مولوی جی کوئی گل بات نئی تے دسو''ہم نے کہاتوآپ نے کیاجواب دیافرمانے لگے ''میں کی آکھناں سی میں کہیاجے کوئی گل بات نہیں تے اینوںاندردیوسوں '' ہم خوب ہنسے اورکہاآپ توچھوٹے ہوؤ ں کوبھی پکڑوانے لگے تھے ۔گویاکہ پولیس والے نے رشوت مانگی تواسے کھری کھری سنادی ۔
ہم
نے دیکھاہے کہ والدین اولاد کی محبت میں ہرجائز اورناجائز کام کرگزرتے ہیں ،غلطی
اپنے بچے کی بھی ہوقصورواردوسرے کے بچے کوہی ٹھہراتے ہیں ۔بچوںکی محبت میں عدل
وانصاف کاخون کرناکوئی عیب تصورنہیں کیاجاتا۔لیکن حافظ صاحب رحمہ اللہ میں یہ بات قطعا نہ تھی آپ نہ
توخودکسی کوایذادیتے اورنہ اپنے بچوں کواس کی اجازت دیتے کہ وہ کسی کوتکلیف
دیں۔بچے بچے ہوتے ہیں ایک ہی جگہ سب کھیلتے ہیں پھرلڑتے ہیں تھوڑی دیربعدپھروہی سب
خوشی سے کھیل رہے ہوتے ہیں
حافظ صاحب کابڑابیٹاعبدالرحمن چھوٹاتھاساتھ والی گلی میں کچھ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محمدمشتاق کے لڑکے سے لڑپڑاتھوڑی دیربعداس بچے کی والدہ گھرآئی اوراعتراض (اولامہ )دیاکہ تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کوماراہے عبدالرحمن اس وقت اندرہی تھاحافظ صاحب رحمہ اللہ نے اسے پکڑااورباہرلے آئے پھراس لڑکے کی والدہ سے کہالے اس سے بدلہ لے لے جتنااس نے ماراہے اتناتوبھی اسے مارلے ۔وہ عورت بغیربدلہ لیے واپس چلی گئی یہی وہ عورت تھی جس کے سوال کاآپ جواب لکھ رہے تھے کہ فالج کاحملہ ہواوہ جوا ب مکمل نہ کرسکے بالاخرآپ نے چھبیس فروری کی رات داعی اجل کولبیک کہہ دیا۔اناللہ واناالیہ راجعون ۔
حافظ صاحب کابڑابیٹاعبدالرحمن چھوٹاتھاساتھ والی گلی میں کچھ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محمدمشتاق کے لڑکے سے لڑپڑاتھوڑی دیربعداس بچے کی والدہ گھرآئی اوراعتراض (اولامہ )دیاکہ تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کوماراہے عبدالرحمن اس وقت اندرہی تھاحافظ صاحب رحمہ اللہ نے اسے پکڑااورباہرلے آئے پھراس لڑکے کی والدہ سے کہالے اس سے بدلہ لے لے جتنااس نے ماراہے اتناتوبھی اسے مارلے ۔وہ عورت بغیربدلہ لیے واپس چلی گئی یہی وہ عورت تھی جس کے سوال کاآپ جواب لکھ رہے تھے کہ فالج کاحملہ ہواوہ جوا ب مکمل نہ کرسکے بالاخرآپ نے چھبیس فروری کی رات داعی اجل کولبیک کہہ دیا۔اناللہ واناالیہ راجعون ۔
آخری
سوال کی کاپی بھی اسی مناسبت سے اس مضمون کے آخرمیں لگادی گئی ہے۔
محترم
المقام جناب حافظ عبدالمنان صاحب نورپوری
اسلام
علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برائے
مہربانی مکان کی فروختگی مبلغ (٧٥٠٠٠٠)روپے ہے مالک میاں صاحب ہیں میاں بیوی حیات
ہیںدولڑکے شادی شدہ جبکہ چاربچیاں شادی شدہ ہیں شرعی اعتبارسے حصہ لکھ
کرمشکورفرمائیں ۔عین نوازش ہوگی ۔والسلام
محمدمشتاق
١٢۔٠٢۔١٤
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازعبدالمنان
نورپوری بطرف محترم محمدمشتاق صاحب حفظھمااللہ الذی اراناآیاتہ فی انفسناوفی
الافاق
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اما
بعد!خیریت موجودخیریت مطلوب ۔اگرآپ اپنی زندگی ہی میں اولادبچے اوربچیوں میں تقسیم
کرناچاہتے ہیں تواس کوہبہ عطیہ کہتے ہیں۔ہبہ عطیہ میں اصول یہ ہے کہ بچے بچی
کوبرابردیاجائے گاللذکرمثل حظ الانثیین والاقانون ادھرنہیں چلے گادلیل صحیح بخاری
کتاب الہبہ میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث ہے پوری تفصیل فتح
الباری میں دیکھ لیں ۔اپنے اوراپنی بیگم کے لیے جتناآپ مناسب سمجھیں رکھ لیں باقی
دولڑکے اورچارلڑکیوں میں برابرتقسیم کردیں ۔
اورآپ زندگی میں تقسیم نہیں کرتے وفات کے بعدحصص کے متعلق سوال کرتے ہیں۔توجناب بیوی کوآٹھواں ٨/١حصہ ملے گااللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
اورآپ زندگی میں تقسیم نہیں کرتے وفات کے بعدحصص کے متعلق سوال کرتے ہیں۔توجناب بیوی کوآٹھواں ٨/١حصہ ملے گااللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
فان کان لکم ولدفلھن الثمن مماترکتم من
بعدوصیۃ توصون بھا اودین