السبت، 28 أبريل 2012

روشن آفتاب کی چند کرنیں


 روشن آفتاب کی چند کرنیں
تحرير: عبدالوحیدساجد
من شاء بعدک فلیمت
فعلیک کنت احاذر

موت ایک اٹل حقیقت ہے فوت شدہ شخص کے ساتھ جس کاجس قدرگہراتعلق ہوتاہے وہ اتناہی اس صدمے سے متاثرہوتاہے دکھ اورغم کی شدت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے ۔تعلق ایک جہت سے ہوتورنج وحزن بھی یک جہتی ہوگااگرجہات تعلق متعددہوں گی توصدمہ بھی کئی جہتی ہوگا۔ویسے تواستاذوبھائی حافظ نورپوری  رحمہ اللہ کی وفات سے ہرشخص غم کاشکارہے جوآپ کی علمی دینی خدمات ،خطوط ورسائل ،مکالمات ،مناظرہ جات اوردروس وخطبات کے ذریعے نصف صدی سے زیادہ کی زندگی سے ذرہ سابھی واقف ہے ۔آپ نے جوزندگی گزاری وہ قابل رشک ہے ۔بچپن نہایت صاف ستھرا اورالائشوں سے پاک ،دوران تعلیم تمام علوم وفنو ن میں مہارت تامہ حاصل کی ،زہدوتقویٰ اورشب بیداری کواپناشعاربنایا،اساتذہ کاغایت درجہ احترام کیا،نفاست وطہارت اورمستقل مزاجی میں اپنی مثال آ پ تھے ۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعدپوری زندگی پڑھنے پڑھانے ،لکھنے اوردعوت وتبلیغ میں صرف کی ۔
اسلامی علوم وفنون میں یگانہ روزگارہونے کی وجہ سے مرجع کی حیثیت اختیارکرچکے تھے ۔خشیت الہٰی سے سرشارقرآن کریم کومحبت کے ساتھ بکثرت تلاوت کرتے ۔آپ راقم الحروف کے صرف استادنہیں بلکہ ماموں زادبھائی ،بہنوئی ،محسن ومربی بھی ہیں ،میرے ساتھ محبت کایہ عالم تھااگرایک دن میں فون نہ کرتاتودوسرے دن وہ خودفون کرتے اگردوچاردن گزرجاتے ملاقات نہ ہوتی توگھرکہتے اس کوبلاؤ وہ آیانہیں ہے ۔پہلی دفعہ میں جب سعودی عرب گیاتوخودمجھے ائرپورٹ چھوڑنے گئے جب میں جہاز میں بیٹھ گیاتوواپس تشریف لائے ۔آج راقم کی ان کی جدائی میں حالت یہ ہے ۔



کانی ولوکنت امرأفی عشیرتی
لفقدک یاخیرالشیوخ غریب 

ولوعشت لی لم اختشع من مصیبة
تکون اذاکانت سواک تصیب
وکنت اریٰ انی اذاغبت میت
ولوکنت یومایاحبیبی تغیب
بقیا ت آجال الیھا انتھا ء نا
بقینا علیھانفتدی ونؤوب
مواقیت لاتدنی بغیضا لبغضہ
لموت ولایحی الحبیب حبیب
تفرق مابین الحبیب وحبہ
مضاجع قدحطت لھن جنوب

حافظ صاحب جب شادی کے بعدہمارے گھرتشریف لاتے تودستک دے کرتھوڑاپیچھے ہوجاتے دروازہ کھلتاتودیکھتے آپ قرآن مجیدکی تلاوت کررہے ہیں ۔
حافظ صاحب  رحمہ اللہ کوپیغمبرنبی کریم  صلى اللہ علیہ وسلم سے والھانہ محبت تھی ،راقم ایک مرتبہ آپ کے گھرحاضرہواآپ اپنی مسندپرتشریف فرماتھے ہاتھوںمیں غالباحافظ ابن قیم  رحمہ اللہ کی کتاب زادلمعادیااعلام الموقعین تھی آپ زاروقطاررورہے تھے میں نے صبرکرنے کاکہاتسلی دی چپ ہوئے تورونے کاسبب پوچھافرمایاکچھ نہیں ۔
میرے بارباراصرارکرنے پرفرمایاوعدہ کروکسی سے ذکرنہیں کروگے میں نے عرض کیاجی ٹھیک ہے ۔توفرمایاکہ مجھے رسول اللہ  صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات یادآئی جس کے غم سے آنسوبہہ نکلے ۔آپ کی پرہیزگاری اورتقویٰ کایہ عالم تھاکہ شبہات سے بھی کوسوں دوررہتے ۔غالبا١٩٧٣ء یا١٩٧٤ء کی بات ہے جامعہ میں گوشت بہت زیاد جمع ہو گیا تھاتعطیلات کی وجہ سے طلباء کی تعدادکم تھی قاضی عبدالرزاق صاحب مرحوم نے مجھے تازہ گوشت دیااورکہایہ حافظ صاحب کے گھرلے جاؤ میں گوشت لے کرگھرآیادروازہ کھٹکھٹایادروازہ آپ نے ہی کھولااورپوچھایہ کیاہے ۔؟میں نے بتایاتوفرمانے لگے : ''جتھوں تے جدے کولوں لے کے آیاایں اونوں اوتھے جاکے واپس کر, تے آئندہ اے کم نہ کریں '' یعنی جہاں سے اورجس سے یہ لے کرآئے ہو اس کووہیں واپس کردواورآئندہ یہ کام نہ کرنامجھے دروازے سے اندرنہیں جانے دیا۔
ایک دفعہ آپ  رحمہ اللہ نے مجھے کہاکچھ کتابیں ہیں بازارسے خریدکرلاؤیہ اس وقت کی بات ہے جب آپ کی تقرری جامع مسجدمحمدیہ نیائیں چوک میں کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی ،فرمایاکتابیں بڑی مسجدمیں خادم کودے دینامیں اس سے لے کرصبح گھرآجاؤں گا۔چندمنٹوں کے بعدمجھے فون کیاکہ کتابیں تم نے خودلے کرمیرے گھرآناہے ۔مسجدمیں کسی کے حوالے نہیں کرنی ہیں چنانچہ میں نے سارے کام چھوڑکرکتابیں لیں اورآپ کے گھرپہنچ گیا۔ملاقات کے بعدمیں نے عرض کیامیں اگرکتابیں مسجدمیں دے دیدیتاتوکیاحرج تھامیراچکربچ جاتاآ پ نے صبح لے ہی لینی تھیں فرمایا:''لوکاں دیاں گلاں کولوں وی بچناچاہی دااے کہ مسیت دیاں کتاباں مولوی گھرلئی جاندااے ''کہ لوگوں کی باتوں سے بچناچاہےے مسجدکی کتابیں مولوی گھرلے جارہاہے ۔
آ پ علیہ الرحمۃ کے زہدوورع اورقناعت کایہ عالم تھاکہ آپ نے کبھی اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، جب کبھی دیگر اساتذہ کی طرف سے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا جاتا تو آپ اس میں اپنا نام نہ لکھنے دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک دفعہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے بتایا کہ ایک مرتبہ اساتذہ کی طرف سے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا تو میں نے اس میں اپنا نام لکھنے سے انکار کر دیا، جب دیگر اساتذہ کی طرف سے مجھ پر مطالبے میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انھوں نے اصرار کیا تو میں نے انھیں یہ سبب بیان کیا کہ میں نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ میں کبھی کسی سے روپے پیسے کا مطالبہ نہیں کروں گا، اس لیے میں اس مطالبے میں شامل نہیں ہوسکتا۔
حافظ صاحب رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ بعد ازاں انتظامیہ مدرسہ نے اساتذہ کا مطالبہ منظور کر لیا اور سب کی تنخواہ بڑھا دی اور دیگر اساتذہ کے ساتھ میری تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا۔ لیکن تنخواہ ملنے سے قبل ہی مدرسے کے ایک بڑے استاذ میرے پاس آئے اور مجھے ملامت کرنے لگے کہ آپ ہمارے ساتھ اضافے کے مطالبے میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن اضافہ ہونے پر آپ اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ میں اس وقت تو خاموش رہا، لیکن جب تنخواہ ملی تو میں تنخواہ لے کر ان کے پاس گیا اور کہا کہ میری تنخواہ میں جو اضافہ ہوا ہے وہ آپ لے لیں، کیونکہ میں آپ کے ساتھ اضافے کے مطالبے میں شریک نہیں ہوا تھا۔ یہ سن کر وہ بڑے شرمسار ہوئے اور انھوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔
تقویٰ کا ےہ عالم تھا کہ جب آپ کودل کی تکلیف ہوئی تواینجیوپلاسٹی کے لیے لاہورڈاکٹرزہسپتال لے گئے توفرمایاکوئی نرس میرے کمرے میں میرے قریب نہ آئے تومیں اینجیوپلاسٹی کرواؤں گاچنانچہ یہ بات ڈاکٹرصاحب سے طے پاگئی توآپ اینجیوپلاسٹی کے لیے تیارہوگئے ۔
اپنے اساتذہ کااحترام توان میں کوٹ کوٹ کربھراہواتھاکسی استاذ کے بارے میں کوئی تبصرہ سنناگوارہ نہ کرتے تھے ۔آپ کے اساتذہ بھی آپ پرخوش تھے بڑی محبت اورشفقت سے پیش آتے کبھی سرزنش کی نوبت پیش نہ آتی ۔استادکے احترام کی وجہ سے ڈانٹ ڈپٹ برداشت نہ کرپاتے ۔جیساکہ اس واقعہ سے عیاں ہے ۔دال بازارکی جامع مسجدمیں آپ کچھ دیرخطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے یہ مسجداس وقت محکمہ اوقاف کے انڈرتھی خطیب کی تنخواہ محکمہ اوقاف کی طرف سے آتی تھی ۔حافظ صاحب  رحمہ اللہ نے خطابت چھوڑ دی آپ کی جگہ کوئی اورخطابت کرنے لگے محکمہ والوں کوپتہ چلاتوانہوں نے تنخواہ  روک لی دوسرے خطیب کونہ دی حافظ صاحب سے پوچھاگیاتوانہوں نے صاف بتادیاکہ میں وہاں خطابت نہیں کرتا۔
ایک روز صبح صبح شیخ الحدیث والتفسیرمولاناعبداللہ صاحب  رحمہ اللہ سرفرازکالونی میں تشریف لائے حافظ صاحب  رحمہ اللہ اس وقت سیالکوٹیوں کے مکان میں کرایہ پررہتے تھے مولاناعبداللہ صاحب کے ساتھ ایک اورآدمی بھی تھادونوں سکوٹر(ویسپا)پرتھے دروازے پردستک دی دیکھاتواستادمحترم تھے حسب عادت اندرتشریف لانے کاکہاشیخ عبداللہ  رحمہ اللہ نے فرمایایہیں بات کرتے ہیں پھراوقاف کی طرف سے تنخواہ کے حوالے سے بات کی شیخ اوراستاد  رحمہ اللہ نے ذراغصے میں فرمایاتم نے یہ کیوں کہا؟بس پھرکیاتھاحافظ صاحب  رحمہ اللہ دھڑام سے نیچے گرے اوربے ہوش ہوگئے مولانااوروہ ساتھی فوراواپس چلے آئے ۔استادمحترم کی اتنی سی بھی جھڑک برداشت نہیں کرسکے ۔
آپ بڑے صابروشاکراورقناعت پسندتھے سرفرازکالونی میں رہائش کرنے سے پہلے آپ جامعہ میں ہی رہتے تھے عموماجواساتذہ جامعہ میں رہتے ان کے کھانے وغیرہ کی خدمت طلباء ہی سرانجام دیاکرتے تھے ۔آپ کے کھانے کی ذمہ داری بھی ایک طالب کی تھی تعلیمی سال کی ابتداء تھی وہ طالب علم آپ کوکھانادینابھول گیاپورے دودن اس نے حافظ صاحب  رحمہ اللہ کوکھانانہیں دیانہ ہی آپ نے طلب کیادونوں دن پانی پی کرگزارہ کیانہ کسی سے شکوہ کیااورنہ طالب علم کی ڈانٹ ڈپٹ کی جب اس کویادآیاوہ بہت پریشان ہواکھانالے کرآیااورمعذرت کی اورندامت کااظہارکیاتوآپ نے فرمایاکوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہوں۔
آپ اپنے والدگرامی قدرجناب عبدالحق مرحوم کابڑااحترام کرتے اطاعت اورخدمت میں پیش پیش ہوتے ۔ایک مرتبہ بیمارہوگئے چارپائی پرلیٹے ہوئے تھے اورروتے جارہے تھے ہم نے سمجھاشایدبیماری کی وجہ سے پریشان ہیںاوررورہے ہیں چنانچہ ہم نے پوچھاتووالدمحترم کی طرف اشارہ کرکے فرمایاان کی خدمت کرناتومیراحق ہے لیکن میں ان سے (بوجہ بیماری )خدمت لے رہاہوں۔
آپ صاف گوتھے اگرچہ بظاہراس سے نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ایک دن مغرب سے پہلے ہمارے گھرتشریف لائے اورنماز مغرب سے فراغت کے بعدفرمایا:آج دال بازارمسجدمیں راناشمشاداحمدسلفی  حفظہ اللہ کاخطاب ہے میں نے بھی جاناہے راقم کے بڑے بھائی حاجی عطاء اللہ مرحوم کے پاس ہنڈا(٧٠)تھامجھے انہوں نے کہاجاؤ گاڑی لے لواور انکوساتھ لے جاؤ۔میری عمرچھوٹی تھی نہ لائسینس تھااورنہ ہی شناختی کارڈ۔راناصاحب کے خطاب سے فراغت کے بعدرات بارہ بجے کے قریب ہم واپس آرہے تھے ،چوک پونڈانوالہ پہنچے تووہاںمجسٹریٹ نے ناکہ لگارکھاتھاپولیس والے نے ٹارچ کے ذریعے ہمیںروکاحافظ صاحب پیچھے پولیس والے کے پاس رک گئے میں گاڑی آگے مجسٹریٹ کے قریب لے آیا۔
مجسٹریٹ نے مجھ سے گاڑی کے کاغذات اورلائسنس پوچھامیں نے بتایاکہ گاڑی کے کاغذات تومکمل ہیں مگرمیرالائسنس نہیں بنا کیونکہ شناختی کارڈ نہیں بنااس نے مجھ سے پوچھاکہاں سے آرہے ہو؟میںنے بتایاکہ درس قرآن کاایک پروگرام تھاوہ سن کرآرہے ہیں ۔اس نے مجھ سے لائسنس بنوانے کاکہامیری معذرت پراس نے ہمیں کہاآپ چلے جائیں ۔جب ہم گھرپہنچے حافظ صاحب  رحمہ اللہ نے پوچھامجسٹریٹ نے کیاکہاتھا؟میں نے بتادیاتوفرمایاکہ مجھے بھی پولیس والا کچھ کہتاتھامیں نے عرض کی کیاکہتاتھا؟فرمانے
لگے ''آنداسی مولوی جی کوئی گل بات نئی تے دسو''ہم نے کہاتوآپ نے کیاجواب دیافرمانے لگے ''میں کی آکھناں سی میں کہیاجے کوئی گل بات نہیں تے اینوںاندردیوسوں '' ہم خوب ہنسے اورکہاآپ توچھوٹے ہوؤ ں کوبھی پکڑوانے لگے تھے ۔گویاکہ پولیس والے نے رشوت مانگی تواسے کھری کھری سنادی ۔
ہم نے دیکھاہے کہ والدین اولاد کی محبت میں ہرجائز اورناجائز کام کرگزرتے ہیں ،غلطی اپنے بچے کی بھی ہوقصورواردوسرے کے بچے کوہی ٹھہراتے ہیں ۔بچوںکی محبت میں عدل وانصاف کاخون کرناکوئی عیب تصورنہیں کیاجاتا۔لیکن حافظ صاحب  رحمہ اللہ میں یہ بات قطعا نہ تھی آپ نہ توخودکسی کوایذادیتے اورنہ اپنے بچوں کواس کی اجازت دیتے کہ وہ کسی کوتکلیف دیں۔بچے بچے ہوتے ہیں ایک ہی جگہ سب کھیلتے ہیں پھرلڑتے ہیں تھوڑی دیربعدپھروہی سب خوشی سے کھیل رہے ہوتے ہیں
حافظ صاحب کابڑابیٹاعبدالرحمن چھوٹاتھاساتھ والی گلی میں کچھ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محمدمشتاق کے لڑکے سے لڑپڑاتھوڑی دیربعداس بچے کی والدہ گھرآئی اوراعتراض (اولامہ )دیاکہ تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کوماراہے عبدالرحمن اس وقت اندرہی تھاحافظ صاحب  رحمہ اللہ نے اسے پکڑااورباہرلے آئے پھراس لڑکے کی والدہ سے کہالے اس سے بدلہ لے لے جتنااس نے ماراہے اتناتوبھی اسے مارلے ۔وہ عورت بغیربدلہ لیے واپس چلی گئی یہی وہ عورت تھی جس کے سوال کاآپ جواب لکھ رہے تھے کہ فالج کاحملہ ہواوہ جوا ب مکمل نہ کرسکے بالاخرآپ نے چھبیس فروری کی رات داعی اجل کولبیک کہہ دیا۔اناللہ واناالیہ راجعون ۔
آخری سوال کی کاپی بھی اسی مناسبت سے اس مضمون کے آخرمیں لگادی گئی ہے۔
محترم المقام جناب حافظ عبدالمنان صاحب نورپوری
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برائے مہربانی مکان کی فروختگی مبلغ (٧٥٠٠٠٠)روپے ہے مالک میاں صاحب ہیں میاں بیوی حیات ہیںدولڑکے شادی شدہ جبکہ چاربچیاں شادی شدہ ہیں شرعی اعتبارسے حصہ لکھ کرمشکورفرمائیں ۔عین نوازش ہوگی ۔والسلام
محمدمشتاق ١٢۔٠٢۔١٤

جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازعبدالمنان نورپوری بطرف محترم محمدمشتاق صاحب حفظھمااللہ الذی اراناآیاتہ فی انفسناوفی الافاق
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اما بعد!خیریت موجودخیریت مطلوب ۔اگرآپ اپنی زندگی ہی میں اولادبچے اوربچیوں میں تقسیم کرناچاہتے ہیں تواس کوہبہ عطیہ کہتے ہیں۔ہبہ عطیہ میں اصول یہ ہے کہ بچے بچی کوبرابردیاجائے گاللذکرمثل حظ الانثیین والاقانون ادھرنہیں چلے گادلیل صحیح بخاری کتاب الہبہ میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث ہے پوری تفصیل فتح الباری میں دیکھ لیں ۔اپنے اوراپنی بیگم کے لیے جتناآپ مناسب سمجھیں رکھ لیں باقی دولڑکے اورچارلڑکیوں میں برابرتقسیم کردیں ۔
اورآپ زندگی میں تقسیم نہیں کرتے وفات کے بعدحصص کے متعلق سوال کرتے ہیں۔توجناب بیوی کوآٹھواں ٨/١حصہ ملے گااللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
فان کان لکم ولدفلھن الثمن مماترکتم من بعدوصیۃ توصون بھا اودین
اسی آیت کولکھ رہے تھے کہ آپ پرفالج کاحملہ ہواجس سے آپ جانبرنہ ہوسکے۔اناللہ واناالیہ راجعون

الجمعة، 27 أبريل 2012

اپنی سرگزشت :: فقیر إلى اللہ الغنی عبد المنان : از قلم حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ الحنان










فقیرالیٰ اللہ الغنی عبدالمنان
ازقلم ۔۔۔۔۔۔حافظ عبد المنان نور پوری


یہ فقیرالیٰ اللہ الغنی عبدالمنان بن عبدالحق بن عبدالوارث بن قائم الدین قلعہ دیدارسنگھ سے مشرق کی جانب واقع گاؤں نورپورچہل میں ١٣٦٠ھ کوپیداہوا۔والدہ کااسم گرامی جواہربی بی ہے میری عمرکوئی سات برس ہوگی کہ والدہ صاحبہ فوت ہوگئیں رحمھااللہ تبارک وتعالیٰ۔ہم چاربھائی تھے دومجھ سے بڑے محمدشریف اورمحمدصدیق ایک مجھ سے چھوٹابشیراحمد۔محمدصدیق توجوانی کی عمرمیں تقریبا١٣٧٠ھ میں فوت ہوگئے ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔بڑے بھائی محمدشریف کی شادی ہوئی چودہ پندرہ سال تک کوئی اولادنہ ہوئی پھران کی دوسری شادی ہوئی توان کے ہاں تین بیٹے اورایک بیٹی پیداہوئی۔بیٹی توبچپن میں ہی فوت ہوگئی ۔بیٹے محمدشفیق،عبداللطیف اورمحمدرفیق حیات ہیں اورصاحب عیال ہیں ۔
چھوٹے بھائی بشیراحمدکی شادی ہوئی پہلابیٹاعبدالستارتولدہوادوسرابیٹاعبدالغفارپیداہواتوبشیراحمدکی بیگم فوت ہوگئی ۔بعدازاں عبدالغفاربھی فوت ہوگیا۔اتفاق ایساہواکہ ہمارے بڑے بھائی محمدشریف بھی فوت ہوگئے تووالدصاحب نے بڑے بھائی کی بیگم کاچھوٹے بھائی سے نکاح کروادیاتواللہ تعالیٰ نے چھوٹے بھائی کواس بیگم سے چاربیٹے دیے ،عبدالجبار،عبدالغفار،زکریااورعبدالرشید۔اب کہ عبدالجباراوراس کی والدہ توفوت ہوچکے ہیں باقی حیات وزندہ ہیں ۔حفظہم اللہ تعالیٰ ۔
بھائی محمدصدیق کی وفات کے بعد١٣٧٢ھ میں والدصاحب نے مجھے گاؤں کے پرائمری سکول میں داخل کروادیا۔سکول میں ہمارے بڑے استاذمولوی غلام رسول صاحب پھِلّوکی والے تھے انہوں نے ہمیں کتابیں بڑی محنت سے پڑھائیں۔١٣٧٦ھ میں سکول سے فارغ ہوگیاتومیرے استاذ مولاناچراغدین صاحب نورپوری خطیب وبانی جامع مسجدنورپورنے جن سے ہم قرآن مجیداورترجمہ پڑھاکرتے تھے..نے میرے والدصاحب سے پوچھا بھائی عبدالحق اس بچے کوپرائمری کے بعدقلعہ دیدارہائی سکول میں داخل کروانااورپڑھاناہے ؟والدصاحب نے جواب دیاکہ میرے بس میں تواتناپڑھاناہی تھاآگے پڑھانے کاکوئی ارادہ نہیں ۔تومولاناچراغدین صاحب جنہیں ہم تمام (ان کے پاس پڑھنے والے بچے ) چچاجی کہاکرتے تھے ۔فرمانے لگے یہ بچہ پھرمجھے دے دیں میں اس کوپڑھالیتاہوں ۔والدصاحب نے فرمایامولوی جی اسے لے جاؤپڑھالو۔
مولاناچراغدین صاحب موصوف رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ کثیرۃ واسعۃ کومساجد،دینی مدارس،مراکزکی تعمیر،بچوں کودینی تعلیم وتربیت ،دین کی ترویج وتبلیغ، صحیح اسلامی عقائدواعمال کی تطبیق وتنفیذ،سنت پرعمل کرنے کروانے اوربچوں کوترغیب دلاکران کے والدین سے اجازت لے کردینی مدارس بالخصوص جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں داخل کروانے ،بعدازاں ان کی نگرانی ،دیکھ بھال کرنے کابہت شوق تھا۔چنانچہ مجھ سے پہلے وہ مولانابشیرالرحمن بن محمدحسین بن حاجی بن دائم الدین نورپوری  رحمہ اللہ کوجامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں داخل کرواچکے تھے ۔تومولاناچراغدین صاحب  رحمہ اللہ اپنے اسی وافرجذبہ کے تحت مجھے ١٣٧٦ ھ میں جامعہ محمدیہ چوک نیائیں گوجرانوالہ شیخ الحدیث والتفسیر،اہل حدیث مغربی پاکستان کے امیر،مولاناابوالخیرمحمداسماعیل بن ابراہیم محدث سلفی رحمہ اللہ العلیم الحکیم الخبیرکے پاس چھوڑآئے اس وقت جامعہ محمدیہ میں مولاناموصوف امیرومہتمم کے علاوہ تین اساتذہ کرام طلبہ کی تعلیم وتربیت پرمعمورتھے ۔شیخ الحدیث والتفسیرمولانامحمدعبداللہ صاحب محدث وخطیب گجراتی ،شیخ الحدیث والتفسیرمولاناعبدالحمیدصاحب ہزاروی اورمولانامحمدوزیرصاحب پونچھی۔جامعہ میں اس وقت چھ سال کانصاب تھا۔جوبحمداللہ وفضلہ مکمل پڑھااسباق کے علاوہ پورے چھ سال استاذ ی المکرم محدث سلفی کافجرکے بعددرس قرآن باقاعدگی کے ساتھ سنتارہا۔تجویدکانصاب ،حفظ و ناظرہ کاانتظام اورتجویدوحفظ ناظرہ کے اساتذہ کرام اس مذکورہ سلسلہ کے علاوہ تھے ۔
گرامی قدرسلفی صاحب کے درس کااندازیہ تھاکہ عربی تفسیرجامع البیان اپنے سامنے رکھتے اورسامعین کے سامنے ساداقرآن مجیدرکھے ہوتے ۔جامع البیان عربی میں چندالفاظ قرآن مجیدکے لکھے ہوتے ہیں ان کے بعدعربی میں تفسیرپھرالفاظ قرآن بعدازاں عربی میں انکابیان ..وہلم جرا ۔ جبکہ قرآن مجیدکے متن کے الفاظ خط کشیدہ ہوتے ہیں ۔مولاناسلفی صاحب اس جامع البیان سے پہلے چارپانچ آیات کریمات تلاوت فرماتے پھران کافصیح وبلیغ سلیس اردومیں رواں دواں ترجمہ فرماتے بعدازاں تلاوت کی ہوئی آیات کریمات سے پہلی ایک دوآیتوں کی پنجابی تشریح وتفسیرفرماتے ۔بایں اندازکہ حالات حاضرہ پربھی روشنی پڑجاتی ۔اس جامع البیان سے قرآن مجیدکی تلاوت رواں دواں انداز میں غیرحافظ کے لےے بہت مشکل ہے ۔اہل علم اس بات کوخوب جانتے پہنچانتے ہیں مگرمولاناسلفی صاحب اس جامع البیان سے بھی ایسے تلاوت فرماتے جیسے وہ سادہ قرآن سے تلاوت فرمارہے ہوں یہ ان کی تلاوت کثرت سے کرتے رہنے کانتیجہ تھا ۔اس کثرت تلاوت سے انہیں اتنی مہارت حاصل ہوچکی تھی کہ بسااوقات صلاۃ تراویح میں قرآن سنانے والے حافظ صاحب کووہ لقمہ دے دیاکرتے تھے ۔جبکہ پیچھے کھڑے حافظ خاموش ہوتے ۔آپ ا س چیزکااندازہ اس سے لگاسکتے ہیں کہ مولاناسلفی صاحب کے پاس ان کی دعوت پریاان کی ملاقات کے لےے علماء کرام ملک کے اطراف واکناف سے آیاکرتے تھے اورکئی ان کے پاس رات بھی ٹھہرجایاکرتے تھے یاآپ خودان کواپنے ہاں رات ٹھہرالیاکرتے ۔پھرفجرکی نماز اداکرنے کے بعدانہیں درس قرآن ارشادفرمانے کی دعوت دیتے توان تمام اہل علم سے صرف دوبزرگ جامع البیان سے عربی سے درس دیتے اورآپ سے پوچھ کردرس کس آیت پرہے ۔؟اسی آیت سے درس شروع کرتے ایک مولاناسیدمحمدداؤدصاحب غزنوی امیراہل حدیث مغربی پاکستان اوردوسرے مولاناعبداللہ صاحب ثانی جڑانوالوی ;۔
درس قرآن کے بعدحاجی غلام نبی صاحب حفظ اللہ تعالیٰ مولاناسلفی صاحب سے حدیث کی ایک کتاب پڑھتے وہ ختم ہوجاتی تودوسری شروع کردیتے یہ فقیرالیٰ اللہ الغنی بھی ان کے ساتھ حدیث کے سبق میں شامل ہوجاتاچنانچہ اس طرح حاجی صاحب موصوف کے ساتھ میں نے صحیح مسلم ،جامع ترمذی ،موطاامام مالک اورصحیح بخاری مولاناسلفی صاحب سے پڑھی ۔صحیح بخاری پڑھنے میں مولانامحمدمنشاء صاحب حامد(خطیب جامع مسجداہل حدیث فردوس الرحمن نوشہرہ روڈ گوجرانوالہ) بھی ہمارے ساتھ شامل تھے ۔چنانچہ صرف ہم دونوں نے مولاناسلفی صاحب سے سندروایت اوراجازت لی ۔مولانانے فرمایاکہ آج تک مجھ سے کسی نے سندروایت نہیں لی اورنہ ہی میری سندروایت چھپی ہوئی ہے ۔میں نے عرض کیاکہ قدیم محدثین امام احمد،امام اسحاق بن راہویہ اورامام بخاری وغیرہم کی اسانیدبھی توطبع شدہ نہیں تھیں ۔آپ اپنے ہاتھ سے لکھ دیں ہم خوش خط کرکے خودلکھ لیں گے ۔آپ دستخط کردینااوراپنی مہرلگادینا۔چنانچہ مولانانے ہمیں اپنی سندلکھ دی اس فقیرالی ٰ اللہ الغنی نے بازارسے سندکے لےے مخصوص بیل والاکاغذخریدااوراپنی اورمولانامحمدمنشاصاحب حامدکی دونوںسندیں اپنے ہاتھ سے لکھیں اورمولاناسلفی صاحب سے دستخط کروائے اورمہربھی لگوائی وہ سندآج تک میرے پاس موجودومحفوظ ہے ۔
اس فقیرالی اللہ الغنی نے ان چھ سالوں سے پانچ سالہ تعطیلات رمضان المبارک میں کوئی نہ کوئی شغل وکام اختیارکےے رکھا۔١٣٧٨ ھ کی تعطیلات میں تھوڑاساخیاطت (سلائی) کاکام اپنے گاؤ ں کے خیاط (درزی) غلام محمدسے سیکھا۔
١٣٧٩ھ کی سالانہ تعطیلات میں کتابت( خطاطی) مولاناعبدالواحدصاحب بمبانوالوی سے سیکھناشروع کی ایک دن تختی لکھ رہاتھامولاناسلفی صاحب نے دیکھ لیاتوپوچھایہ کتابت کن صاحب سے سیکھتاہے۔
میں نے کہااستادمحترم مولاناعبدالواحدصاحب سے ،فرمانے لگے مولاناعبدالمجیدصاحب نظام آبادی کاخط ان سے اچھاہے میں ان کوکہہ دوں گاچنانچہ انہوں نے ان سے کہہ دیاتومیں کتابت سیکھنے کے لےے ان کے پاس جانے لگا۔مولاناعبدالمجیدصاحب مولاناسلفی صاحب کے بیٹوں کے ماموں جان ہیں ۔
١٣٨٠ھ میں سالانہ تعطیلات رمضان المبارک میں مولاناداؤدصاحب ارشدنے میاںچنوں اپنی مسجدمیں دورہ تجویدکااعلان فرمایاتویہ فقیرالی اللہ الغنی تجویدپڑھنے کی خاطروہاں چلاگیاتوقاری ولی محمدصاحب سے تجویدکی کتاب جمال القرآن پڑھی ،کچھ قواعدزبانی سنے ،قرآن مجیدکی تلاوت کی مشق کی اورحروف تہجی کی صفات پرایک جدول نقشہ تیارکیااس کے آخرمیں عربی زبان میں ایک توضیحی نوٹ بھی لکھا۔قاری تاج محمدصاحب عبدالحکیم والے امتحان کے لےے تشریف لائے توہمارے استادمحترم قاری ولی محمدصاحب نے وہ نقشہ قاری تاج محمدصاحب کوسنایاقاری صاحب بڑے خوش ہوئے اورنقشے کے نیچے انہوں نے ایک تقریظی نوٹ لکھوایااوراپنی مہرلگوائی ۔١٣٨٢ھ کی سالانہ تعطیلات رمضان المبار ک میں حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی رحمہ اللہ کے دورہ تفسیرچوک دالگراں لاہورمیں حاضری دی ،دورہ تفسیرکاامتحان پاس کیااوردورہ تفسیرکی سندمحدث روپڑی سے حاصل کی ۔
شعبان ١٣٨٢ھ کی بات ہے کہ مولاناسلفی صاحب نے نماز فجرپڑھ کردرس قرآن کے بعدسالانہ امتحان کے نتائج کااعلان فرمایاتوحاجی محمدیوسف صاحب بان سوتری والوں نے فرمایاجوطالب علم اول آیااسے پچاس روپے انعام ،وہ ہماری دوکان سے اپناانعام لے آئے ۔چندروز کے بعدمولاناسلفی صاحب نے پوچھاتجھے انعام مل گیاہے ؟عرض کیاجی نہیں !توفرمانے لگے توان کی دوکان پرنہیں گیا؟عرض کیاجی نہیں ۔پھریہ فقیرالی اللہ الغنی دورہ تفسیرکی خاطرلاہورچوک دالگراں چلاگیا۔جمعہ کوسبق کی چھٹی ہوتی تھی ایک جمعہ شیش محل روڈ مولانامحمدعطاء اللہ صاحب حنیف محدث بھوجیانی  رحمہ اللہ کی ملاقات کی غرض سے آیاان کے مکتبہ سلفیہ میں ان کے پاس بیٹھاہواتھاکہ مولاناسلفی صاحب تشریف لے آئے ۔آپ جمعیت اہل حدیث کے مرکزی دفترتقویۃ الاسلام غزنویہ میں وقتافوقتاآتے جاتے رہتے تھے ۔فرمانے لگے یہ لے پچاس روپے اپناانعام میں نے شیخ یوسف صاحب سے وصول کرلیاتھا۔
١٣٨٢ھ ہی کی بات ہے محکمہ اوقاف والوں نے کوئٹہ میں مساجداوقاف کے ائمہ وخطباء کی تربیت کے لیے  تین ماہ کاکورس ترتیب دیا۔مولانامحمدعبداللہ صاحب خطیب گجراتی دال بازارکی جامع اہل حدیث میں خطبہ ارشادفرمایاکرتے تھے یہ مسجداس وقت اوقاف میں تھی چنانچہ آپ مولاناسلفی صاحب سے جامعہ محمدیہ میں تدریس کی چھٹی لے کرکورس کی خاطرکوئٹہ چلے گئے کورس سے فارغ ہوکرواپس آئے توجامعہ محمدیہ میں تدریس شروع کردی ۔محکمہ اوقاف والوں نے تین ماہ کاایک اورکورس بہاول پورمیں رکھ دیامولانامحمدعبداللہ صاحب محدث گجراتی کوبھی دعوت آگئی ۔آپ پھرتیارہوگئے مولاناسلفی صاحب مہتمم جامعہ محمدیہ سے چھٹی طلب کی توفرمانے لگے آپ نہ جائیں کیونکہ تین ماہ توآپ پہلے لگاآئے ہیں تین ماہ اورچھٹی پرچلے جائیں تواس طرح طلباء کے اسباق کاچھ ماہ زبردست حرج ہے ۔مولاناگجراتی صاحب فرمانے لگے جانے میں بہت علمی فائد ہ ہے مولاناسلفی صاحب نے فرمایاٹھیک ہے آپ چلے جائیں ہم تدریس کے لیے اوراستادرکھ لیں گے ۔مولاناگجراتی فرمانے لگے درست ہے آپ اوراستاد رکھ لیں ۔چنانچہ مولاناتین ماہ کورس کے لےے بہاول پورچلے گئے ۔فارغ ہوکرواپس آئے توجامعہ محمدیہ میں توان کی جگہ پرتدریس کے لےے اوراستاد رکھ لےے گئے تھے مولاناصاحب نے دال بازاروالی جماعت سے بات کی پہلے تومیں جامعہ محمدیہ میں پڑھایاکرتاتھااب سارادن فارغ بیٹھارہوں گا۔اس طرح علم بھی آہستہ آہستہ بھولنے لگے گاجماعت نے کہاآپ ادھردال بازارکی جامع مسجدمیں مدرسہ قائم کرلیں ۔مولاناخودبھی پائے کے بڑے استادوں میں تھے ادھرآپ نے بڑے حافظ صاحب محدث گوندلوی سے بھی دال بازارمیں تدریس کرنے کی بات کرلی اورحافظ صاحب مان گئے مولانابشیرالرحمن نورپوری ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے ۔جامعہ سلفیہ فیصل آبادمیں آخری ایک سال لگاکرآئے تھے ان کوبھی آپ نے دال بازاروالے مدرسہ میں استادرکھ لیااس طرح قاضی مقبول احمدصاحب کوبھی دال بازاروالے مدرسہ میں استادبنالیا۔بعدمیں علامہ احسان الٰہی ظہیربھی تھوڑی مدت کے لیے دال بازاروالے مدرسہ میں اعزازی استادبن گئے ۔ضلع گجرات کے دواستاذبھی وقتابعدوقت رکھے گئے ۔
ایک جمعہ کے خطبہ میں مولاناصاحب نے اعلان کیاکہ دال بازاروالی جامع مسجدمیں مدرسہ قائم کردیاگیاہے شوال میں پڑھائی شروع کردی جائے گی اوربڑے حافظ صاحب محدث گوندلوی بھی بخاری شریف اسی مدرسہ میں پڑھائیں گے ان شاء اللہ ۔جامعہ محمدیہ چوک نیائیں کے کئی طلبا ء استادصاحب کی اقتداء میں جمعہ اداکرنے کی غرض سے دال بازاروالی مسجدمیں جمعہ پڑھنے آیاکرتے تھے توان ساتھیوں میں سے ایک ساتھی نے واپس جاکرخبردی کہ آج خطبہ جمعہ میں استادصاحب نے یعنی مولانامحمدعبداللہ صاحب نے اعلان فرمایاہے کہ دال بازاروالی مسجدمیں مدرسہ قائم کردیاگیاہے شوال کواس مدرسہ میں پڑھائی کاآغازہوگااوربڑے حافظ صاحب محدث گوندلوی بھی اسی مدرسہ میں بخاری شریف ادھرہی پڑھائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ساتھی نے جس وقت آکریہ خبرسنائی اس وقت میں اپنی اوراپنے ساتھی مولانامحمدمنشاء صاحب حامدکی سندیں کتابت کررہاتھا۔فورامولاناکی خدمت میں حاضرہواکہ استادجی مجھے بھی اپنے مدرسہ میں داخل فرمالیجیئے  مولانانے فرمایاتوداخل ہی داخل ہے بڑی کتابیں پڑھ لیاکراورچھوٹی کتابیں پڑھادیاکرکیونکہ ہمارے پاس استادوں کی کمی ہے ۔کام بھی نیانیاہے میں نے کہاجی درست ہے دراصل میں جامعہ محمدیہ سے فارغ ہوچکاتھااورحافظ صاحب محدث گوندلوی کے پا س بخاری پڑھنے کی غرض سے جاناچاہتاتھا۔محدث گوندلوی دال بازاروالے نئے مدرسہ میں تشریف لے آئے تواس فقیرالی اللہ الغنی نے اس نئے مدرسہ کی طرف رجوع کیا۔مولانامحمدعبداللہ صاحب گجراتی پہلے ہی جامعہ محمدیہ میں میرے استادتھے خندہ پیشانی سے انہوں نے مجھے داخل فرمالیا۔
اس نئے مدرسہ کانام پہلے پہل'' دارالحدیث مدینۃ العلم''رکھاگیاآٹھ سال کانصاب بنایاگیا۔آلی علوم وفنون کی کافی کتب کواس نصاب میں سمودیاگیاحافظ صاحب محدث گوندلوی کے مشوروں کوخصوصی اہمیت دی گئی بلکہ کافی حدتک اس نصاب میں ان ہی کی تجویزکردہ کتب کوشامل کیاگیا۔افتتاحی درس میں حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی کوبھی مدعوکیاگیاوہ تشریف لائے اس مدرسہ کی انتظامیہ کانام ''اخوان اہل حدیث''رکھاگیا۔ کاامیرحافظ نصیرالدین صاحب اورخازن حاجی عبدالحق صاحب ناگی کوبنایاگیا۔طلبہ کی رہائش کے لےے جامع مسجددال بازارکے ساتھ ملحقہ عمارت کرائے پرحاصل کی گئی اورمسجدکی جنوبی جانب مسجداورعمارت کی درمیانی دیوارسے چھت کے اوپرسے مسجدآنے جانے کاراستہ بنایاگیا۔ابتداء  ہی مدرسہ کومشہورومعروف ،تجربہ کارحدیث وتفسیراوردیگرعلوم وفنون کے ماہراساتذہ کرام کی خدمات میسرآگئیں ۔
اس لیے پہلے سال ہی اول سے لے کرآٹھویں جماعت تک طلبہ آگئے ۔حافظ ذکاء اللہ ،حاجی عطاء اللہ ،حاجی حبیب اللہ اورمولاناثناء اللہ سالک بلتستانی وغیرھم پہلے سال ہی حافظ صاحب محدث گوندلوی سے بخاری شریف پڑھنے کی غرض سے اس مدرسہ میں داخل ہوئے تھے ۔صوفی اکبرصاحب بھی حافظ صاحب کی وجہ سے ہی تشریف لائے تھے ۔
مدرسہ کے لےے جگہ تنگ تھی اس لیے مولاناموصوف اس کوشش میں تھے کہ کھلی جگہ شہرسے باہرکہیں مل جائے تومدرسہ وہاں لے جایاجائے ۔حاجی غلام محمدصاحب امرتسری رنگ والوں نے لاہورکی جانب برلب جی ٹی روڈ پرایک ایکڑزمین فیکٹری کے لےے خریدرکھی تھی انہوں نے ایثارسے کام لیتے ہوئے زمین مدرسہ کودے دی ۔فوری طورپرجی ٹی روڈ کے بالکل سامنے چھ کمرے نیچے اورچارکمرے اوپرکل دس کمرے تیارکیے گئے حاجی صاحب موصوف امرتسری رنگ والے بذات خودمعماروں اورمزدوروں کی نگرانی فرماتے ۔صبح آجاتے اورشام کوواپس جاتے ان کے بیٹے دوپہرکاکھاناانہیں ادھرہی پہنچاتے ۔لینٹرکاموقع آتامولانادال بازارمیں اعلان فرمادیتے حاجی پورے والوں کی بس آجاتی طلباء، مسافرخانہ اورحاجی پورہ سے نمازی بس میں بیٹھ جاتے جی ٹی روڈ جائے عمارت پہنچ کرمولاناخود،طلباء اورشہرسے آئے ہوئے لوگ سب حسب ہمت وشان لینٹرڈالنے میں کام کرتے ۔دس کمرے تیارہوگئے توحافظ عبدالقادرصاحب روپڑی اورسیدابوبکرغزنوی ; کودعوت دی گئی وہ تشریف لائے تواس طرح جی ٹی روڈ والے مدرسہ کاافتتاح عمل میں آیا۔یہ ١٣٨٤ھ کی بات ہے اس دن سے جی ٹی روڈ والی عمارت میں پڑھائی شروع کردی گئی ۔بعدازاں اس عمارت کی شمالی جانب مسجدکے لیے چھوڑی ہوئی جگہ میں حاجی عبدالرحمن صاحب ناگی نے مسجدبنوانے میں نگرانی کی ۔اب کہ وہ مسجداوردس کمرے نئی مسجدمیں آگئے ہیں ۔
مدرسہ کے نام ''دارالحدیث مدینۃ العلم ''میں جامعہ کالفظ نہیں تھاجامعہ والے کئی نام سامنے آئے بڑے حافظ صاحب محدث گوندلوی کی تجویز سے مدرسہ کانام ''جامعہ شرعیہ ''رکھ دیاگیا۔١٣٨٨ھ میں استاذی المکرم مولاناسلفی صاحب وفات پاگئے توجماعت نے ان کی جگہ پراستاذی المکرم مولانامحمدعبداللہ صاحب کوخطیب ومہتمم مقررفرمایا۔بعدازاں جامعہ شرعیہ کوجامعہ محمدیہ میں مدغم کردیاگیا۔اورجامعہ شرعیہ نام ختم کردیاگیا۔فیصلہ ہواکہ حفظ ،تجویداورناظرہ کاشعبہ بدستورجامعہ محمدیہ چوک نیائیں ہی میں رہے اوردرس نظامی کاشعبہ جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں اکٹھاکردیاجائے ۔جی ٹی روڈ میں اساتذہ تھے خودمولانامحمدعبداللہ صاحب خطیب ،مہتمم ،مولاناابوالحسن جمعہ خاں صاحب ہزاروی ،مولانابشیرالرحمن صاحب نورپوری اورراقم السطور۔جامعہ محمدیہ چوک نیائیں کے اساتذہ تھے شیخ الحدیث والتفسیرمولاناعبدالحمیدصاحب ہزاروی جامعہ محمدیہ میں ان کی تدریس کاپہلاسال وہی ہے جومیراپڑھنے کاپہلاسال تھا۔یعنی ١٣٧٦ھ ۔مولاناحافظ عبدالسلام صاحب بھٹوی اورمولاناحافظ محمدرفیق صاحب جھجھوی حفظہ اللہ ۔تویہ سب اساتذہ جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں بڑی تندہی سے تدریسی فرائض سرانجام دینے لگے صرف حافظ عبدالسلام صاحب بھٹوی بعدمیں استعفیٰ دے کرالگ ہوگئے اورمولاناابوالحسن جمعہ خان صاحب ہزاروی فوت ہوگئے ۔فرحمہ اللہ تعالیٰ۔
یہ ان اساتذہ کاتذکرہ ہے جودرس نظامی پڑھانے والے جامعہ شرعیہ کے جامعہ محمدیہ میں مدغم ہونے کے وقت تھے ۔بعدمیں جامعہ محمدیہ میں درس نظامی کے اوراساتذہ بھی متعین کےے گئے ۔نیزحفظ ،تجویداورناظرہ کے اساتذہ ان کے علاوہ تھے اورہیں ۔

اس فقیرالیٰ اللہ الغنی کے مشائخ عظام اوراساتذہ کرام :

١۔شیخ الحدیث والتفسیر،اہل حدیث کے امیرحافظ ابوعبداللہ محمدبن فضل دین بن بہاء الدین محدث گوندلوی  رحمہ اللہ ۔
ان سے جامع مسجداہل حدیث دال بازارمیں تحفۃ الاخوان اورجامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں قرآن مجیدکی تفسیراورصحیح بخاری دودفعہ پڑھی ۔
٢۔شیخ الحدیث والتفسیر،اہل حدیث کے امیرمولاناابوالخیرمحمداسماعیل بن ابراہیم محدث سلفی  رحمہ اللہ ان سے جامعہ محمدیہ چوک نیائیں میں مندرجہ ذیل کتب پڑھیں ۔
صحیح بخاری،صحیح مسلم ،جامع ترمذی اورموطاامام مالک ،چھ سال فجرکے بعدان کادرس قرآن سنا،ان سے سندروایت بھی حاصل کی اوراردوسے عربی بناکران کودکھاتاوہ اصلاح فرماتے ۔
٣۔شیخ الحدیث والتفسیرحافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی  رحمہ اللہ ان سے جامع مسجدقدس اہل حدیث چوک دالگراں لاہورمیں دورہ تفسیرپڑھا اور ان سے دورے کی سندحاصل کی ۔
٤۔شیخ الحدیث والتفسیراہل حدیث کے امیرمولاناابوعبدالرحمن محمدعبداللہ بن عبدالرحمن محدث گجراتی  رحمہ اللہ ۔ان سے جامعہ محمدیہ چوک نیائیں میں ابواب الصرف ،بلوغ المرام ،مشکواۃ اورجامع البیان اوردال بازارمیں بدایۃ المجتہداورسراجی پڑھی ۔
٥۔شیخ الحدیث والتفسیرحافظ ابوالحسن عبداللہ بن عبدالکریم محدث بڈھیمالوی  رحمہ اللہ ان سے جامع مسجداہل حدیث کورٹ روڈکراچی میں دورہ تفسیرپڑھااورسنداجازت حاصل کی ۔
٦۔شیخ الحدیث والتفسیرمولاناعبدالحمیدصاحب محدث ہزاروی حفظہ اللہ ۔ ان سے جامعہ محمدیہ چوک نیائیں میں مندرجہ ذیل کتب پڑھیں۔
 گلستان ،بوستان سعدی ،فصول اکبری ،شافیہ ،مراح الارواح،علم الصیغہ ،ہدایۃ النحو،کافیہ ،الفیہ ابن مالک ،شرح ابن عقیل ،شرح نخبہ ،مقدمہ ابن صلاح ،مجموعہ منطق،مرقات منطق،شرح تہذیب ،قطبی ،سنن نسائی ،جامع ترمذی ،سنن ابی داؤد،موطاامام مالک ،صحیح مسلم ،صحیح بخاری ،نورالایضاح،قدوری،شرح وقایہ ،کنزالدقائق،تلخیص المفتاح،مختصرالمعانی ،القراء ۃ الرشیدہ اول دوم چہارم نفحۃ الیمن ،سبع معلقہ ،دیوان الحماسہ ،کلیلہ دمنہ ،مقامات حریری ،دیوان المتنبی ،اصول شاشی ،نورالانواراورحسامی وغیرہ ۔
٧۔مولانامحمدوزیرصاحب پونچھی   حفظہ اللہ ان سے جامعہ محمدیہ چوک نیائیں میں مندرجہ ذیل کتب پڑھیں۔سنن ابن ماجہ ،چھٹی جماعت کی کتاب فارسی ،عربی کامعلم ،نحومیر،صرف میر،میزان الصرف ،صرف بہائی ،نخبۃ الاحادیث اوردرجات الادب وغیرہ ۔
٨۔مولاناعبدالرحمن بن عطاء اللہ بن محمدبن بارک اللہ لکھوی  رحمہ اللہ ان سے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں قاضی مبارک اورخلاصۃ الحسا ب پڑھیں ۔
٩۔شیخ الحدیث والتفسیرمولانامحمدعبداللہ صاحب امجدچھتوی  حفظہ اللہ ان سے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں دورہ مناظرہ پڑھا۔
١٠۔علامہ احسان الہٰی صاحب ظہیرشہیدبن حاجی ظہورالہٰی صاحب ;ان سے جامع مسجداہل حدیث دال بازارمیں رشیدیہ ،دیوان الحماسہ اورشرح العقائدالنسفیہ  پڑھیں۔
١١۔مولاناابوالحسن جمعہ خان صاحب ہزاروی  رحمہ اللہ ان سے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں تفسیربیضاوی ،الفوزالکبیر،شمس بازغہ،صدراء،ملاحسن ،حمداللہ ،مسلم الثبوت،تلویح التوضیح ،تاریخ الادب العربی ،محیط الدائرہ ،تحریراوقلیدس،شرح تہذیب از ملاجلال ،حاشیہ میرزاہد،خیالی ،شرح مواقف،مطول ،تصریح ،شرح چغمینی وغیرھاپڑھیں ۔
١٢۔مولاناعزیزالرحمن صاحب ایبٹ آبادی   حفظہ اللہ ان سے جامع مسجداہل حدیث دال بازارمیں سلم العلوم اورجی ٹی روڈ ہدایۃ الحکمۃ اورمیبذی پڑھی۔
١٣۔قاری محمدیونس صاحب پانی پتی  رحمہ اللہ ان کے مدرسہ کچے دروازے میں ادائیگی الفاظ کی تصحیح کی اورتقریبادوپارے آخری حفظ کیے ۔
١٤۔قاری ولی محمدصاحب  رحمہ اللہ ان سے مولاناداؤدصاحب ارشدکی جامع
١٥۔حافظ محمدقاسم صاحب خواجہ  رحمہ اللہ ان سے جامعہ محمدیہ چوک نیائیں میں القراء ۃ الرشیدۃسوم پڑھی۔
١٦۔مولاناعبدالحمیدصاحب گجراتی  رحمہ اللہ ان سے جامع مسجداہل حدیث دال بازارمیں شرح جامی ،قطبی ،میرقطبی ،سعدیہ ،رشیدیہ اورہدیہ سعیدیہ پڑھیں ۔
١٧۔مولاناغلام رسول صاحب گجراتی  رحمہ اللہ ان سے حاشیہ عبدالغفورپڑھی ۔
١٨۔مولاناچراغدین صاحب نورپوری  رحمہ اللہ قاری عصمت اللہ صاحب ظہیرقلعہ دیدارسنگھ والوں کے والدگرامی ان سے نورپورکی جامع مسجداہل حدیث میں قرآن مجیدباترجمہ پڑھتارہااورانہوں نے اس فقیرالی اللہ الغنی کی تعلیم وتربیت پراتنی توجہ دی کہ اتنی توجہ میرے والدصاحب بھی نہیں دے سکے ۔کبھی کبھارہم ساتھیوں نے چھٹی پرنورپورجاناتورات عشاء کے بعدانہوں نے ہمیں مسجدمیں بٹھالیناپھرپندونصائح کاسلسلہ شروع فرمادینااوررات گئے تک ہمیں وعظ ونصیحت فرماتے رہنا۔
اللھم ارحم عبدک چراغدین فانہ وجھنا واہل القریۃ الی الدین۔ادخلہ الجنۃ الفردوس،یارب العالمین ۔
١٩۔مولاناغلام رسول صاحب پھلوکی والے  رحمہ اللہ ان سے پرائمری سکول نورپورمیں اس وقت رائج پرائمری نصاب پڑھا،کتاب ''ہماراحساب''پرانہوں نے ہمیں خوب محنت کروائی ۔
٢٠۔ماسٹرنذیراحمدپھلوکی والے   حفظہ اللہ یہ بھی پرائمری سکول نورپورمیں ہمارے استادتھے ۔
٢١۔ماسٹرعبدالمنان رازحاجی پورے والے  رحمہ اللہ ان سے جامع مسجداہل حدیث دال بازارمیں چھٹی جماعت کی انگریزی کی کتاب پڑھی ۔
٢٢۔حکیم نذیراحمدصاحب جنڈیالوی  رحمہ اللہ ان سے ان کے مطب تھانے والے بازارمیں طب کی کتاب شرح اسباب پڑھی ۔
٢٣۔حکیم عبدالمجیدصاحب نظام آبادی  رحمہ اللہ جامعہ محمدیہ چوک نیائیں کے پاس اونچی مسجدکی دوکانوں سے ان کے مطب والی دوکان میں ان سے خوشخطی سیکھتارہا۔
٢٤۔مولوی عبدالواحدصاحب کاتب بمبانوالی  رحمہ اللہ جامعہ محمدیہ چوک نیائیں کی دوکانوںمیں ان کی دوکان پران سے کتابت  (لکھائی ) کی مشق کرتارہا۔
٢٥۔جناب غلام محمدولدسردارخیاط( درزی) نورپوری  رحمہ اللہ اپنے گاؤں نورپورمیں ان سے خیاطت( سلائی) سیکھی ۔
٨۔٢۔١٤٢٨ھ
سرفرازکالونی گوجرانوالہ






اک اور شمع بجھ گئی : استاذی المکرم :: حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ




اک اورشمع بجھ گئی
جو بادہ کش تھے پرانے اٹھے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
                              تحریر…:محمد عظیم حاصل پوری (تنقیح واضافہ: محمدرفیق طاہر) *

    چارربیع الثانی کی رات راقم پھوپھی زادبھائی خالدکی وفات کی خبرسن کراپنے اہل وعیال کے ساتھ حاصل پور کی طرف محوسفرتھا،رات کا سناٹا چار سوچھایا ہوا تھا، صبح صادق ابھی طلوع نہ ہوئی تھی کہ محترم بزرگ دوست محمدنذیرصاحب(جوکہ حافظ صاحب کے دامادجہانگیرکے والدمحترم ہیں ) کی کال آئی صدافسوس کہ میں اسے رسیونہ کرسکااچانک سیل فو ن دیکھاتوواپسی کال کردی، حاجی صاحب کی غم میں ڈوبی ہوئی دھیمی آوازنے افسوس ناک خبرسنائی کہ علمی دنیا کی اک شمع اور بجھ گئی توباوجوداس کے کہ گاڑی اپنی تیزرفتاری سے ہرچیز کوپیچھے چھوڑے جاری تھی مگرمیںگویاایک ہی جگہ رک گیاآنکھوں میں آنسوتیرنے لگے ،چہرہ اداس اوردل افسردہ ہوگیاشایدآج زندگی میں پہلی بارمجھے کسی کے دنیاسے جانے کااتناصدمہ ہواتھا۔
زار زار رو کے دل زار کہہ رہا ہے
افسردہ ہے مغموم ہے دلگیر ہے طاہر
گاڑی اپنے شہرسات بجے پہنچی اورنوبجے وہاں سے واپسی استادمحترم کے آخری حق کواداکرنے کے لیے رخت سفرباندھ لیا،راستے میں بہت سے قافلے اسی حق کواداکرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے اورجلدپہنچنے کی کوشش میں دیکھنے کوملے ۔رفاقت سفرکاکچھ حصہ استادمحترم شیخ عبداللطیف (آف بہاولپور)میاںسہیل احمد،مولاناعبیدالرحمن صاحب ،مولاناعطاء الرحمن صاحب ،محتر م عابدربانی  اورعبدالواحدبھائی کے ساتھ گزارنے کابھی موقعہ ملا۔جامعہ محمدیہ کے پہلومیں پہنچے توپوراپارک تنگی داماں کاشکوہ کرتے نظرآرہاتھا۔ اورہر کوئی رنج والم میں چور یہ کہہ رہاتھا :
یہ کس شہ عالم کو صیاد اجل نے چن لیا
شدت غم سے پریشاں حال ہیں پیرو جواں
کیا خبر آئی کلیجہ تھام کر بیٹھاہوں
مرثیہ لکھوں ، قلم برداشتہ، ہمت کہاں
سوچئے تو لالہ وگل پر قیامت آگئی
آنِ واحد میں ہوئے سرو سمن نالہ کناں
ماضیء مرحوم کی تاریخ کا بابِ عظیم
سرزمین علم وعرفاں کا روشن نشاں
حادثہ کی جانگسل ضربیں رخِ الفاظ پر
سانحہ، ایسا خجستہ گام ہے زورِ بیاں
ظلمت ایام کے چہرے کی رسوائی بڑھی
اور تشنہ رہ گئی دعوت دیں کی داستاں
نماز جنازہ کی امامت کے فرائض آپ کے دیرینہ رفیق حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ نے اداکیے عمومانماز جنازہ کی ادائیگی سے پہلے میت کے فضائل ومناقب پرکچھ نہ کچھ تاثرات پیش کیے جاتے ہیں ۔لیکن لواحقین سے شیخ عبدالوحیداوردیگربزرگوں کاکہناتھاکہ حافظ صاحب جنازوں سے پہلے خطابات کوپسندنہیں فرماتے تھے لہذاکسی کاخطاب نہیں ہوگااورنہ ہی کوئی ویڈیویاتصویربنائے گاکیونکہ آپ اس سے سختی سے منع فرماتے تھے اورفرمایاکرتے تھے جومیری تصویربنائے گاوہ روزقیامت خوداس کاجواب دہ ہوگا۔ دنیامیں کوئی کیمرہ تو انکی تصویر نہ بنا سکا لیکن انکی تصویر ہزاروں سینوں میں پنہاں اور دماغوں میں مستور ہو چکی ہے ۔ اور عقیدت مندوں کا عالم تو یہ ہے کہ
دل میں ہے تصویر یار
جب جی چاہا گردن جھکائی دیکھ لی
جنازے کی ادائیگی کے بعدآخری دیدارکے لیے لوگوں کاہجوم اورعقیدت مندوں کی دھکم پیل دیکھی نہ جاتی تھی غروب آفتاب کے ڈرسے جلدآپ کے جسدخاکی کواٹھالیاگیاجس کی وجہ سے آپ کے بہت سے محب آپ کاچہرہ نہ دیکھ سکے ،مجھے قاری احسان اللہ اولکھ صاحب نے بتایاکہ ہم نماز  جنازہ سے پہلے حافظ صاحب کے گھرپہنچے، گھرمیں بہت ہجوم تھاآپ کاجسدخاکی آپ کے گھرکے اندرونی کمرے میں تھامیں حافظ اسعدمحمودسلفی صاحب کوساتھ لے کرآپ کی زیارت کے لیے آگے بڑھااورکہاکہ حافظ صاحب جی بھرکراس جنتی انسان کادیدارکرلیجئے ۔آپ کاچہرہ نکھراہواتھااورمیں دیکھ کربے اختیارکہنے لگاکہ'' آپ توجنتی حوروں کے دلہے بن گئے'' اوریہ یقین ہوگیاکہ آپ کویقینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری دینے کے لیے ملائکہ کہہ رہے ہوں گے :
یاأیتھاالنفس المطمئنة........................
ہاشمی کالونی گوجرانوالہ کے قبرستان کو اس استعارہ حب رحماں کی آخری آرمگاہ ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے                  سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
 اوربعد از تدفین حافظ اسعدمحمودسلفی صاحب قبرپردعا کروانے لگے تورقت آمیزلہجے میں کروائی گئی دعاء نے عجب سماں باندھا کہ جس سے تمام افرادکی آنکھیں بے اختیارآنسوبہارہی تھیں حافظ صاحب فرمارہے تھے کہ میں خوش نصیب ہوں کہ جس کوآپ کی قبرپردعا کی سعادت ملی ہے ۔ (حافظ صاحب مرحوم قبر پر کھڑے ہوکر اجتماعی دعاء کے قائل نہ تھے )
سداان کی ترتبت پہ نازل ہورحمت
میسرہوان کوہراک حق کی  نعمت
قاری عبداللہ (سابق مدرس مسجدمکرم)فرمارہے تھے کہ تدفین کے بعدجب لوگ جامعہ محمدیہ واپس پہنچے توایک بھائی کہہ رہے تھے کہ حافظ صاحب کے متعلق اپنے اپنے تاثرات بھی لکھ کرجائیں ۔توایک بزرگ نے موجودہ تمام لوگوں کی طرف اشارہ کرکے کہایہ تم نہیں دیکھ رہے یہ حافظ صاحب کے تمام جنتی ہونے کے گواہ ہیں چونکہ نبی  صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:أنتم شهداء الله في الأرض
استادمحترم محبت والفت ،شفقت ورافت ،نرمی عفوودرگزر،نہایت سادہ وقناعت پسندفرشتہ صفت انسان تھے ہمیشہ روحوں کومعطرکردینے والی گفتگوکے قائل تھے اخلاق وکردارمیںبے داغ آپ میں خودنمائی وخودستائشی قطعا نہ تھی آپ قرآن مجیدکی اس آیت (سیماھم فی وجوہھم من اثرالسجود)کی عملی تصویرتھے مجھے یادپڑتاہے کہ ہم جامعہ محمدیہ میں چھٹے سال میں تھے کہ ڈی ،جی ،خان سے ایک آدمی آپ کی ملاقات کے لیے آیااورکہنے لگاکہ مجھے حافظ صاحب کے پا س لے چلوہم دوساتھی انہیں لے کرحافظ صاحب کی مسجدمیں گئے کہ نماز کے بعدملاقات ہوجائے گی مہمان کہنے لگاکہ میں نے حافظ صاحب کودیکھانہیں ہے لیکن میں وضوء کرکے دروازے کے سامنے کھڑاہوتاہوں تم دیکھنامیں حافظ صاحب کوپہچان لوں گا کہ یہی حافظ عبدالمنان نورپوری صاحب ہیں پھرایساہی ہواکہ حافظ صاحب تشریف لائے تومہمان اشارہ کرکے کہنے لگاکہ کیا یہی ہیں حافظ صاحب جوسرپرروما ل باندھے آرہے ہیں ہم نے اثبات میں سرہلادئیے ۔یقینااللہ کے ولی عام لوگ میں منفرد اور یکتا ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی مرگ ِ ناگہاں کی ستیزہ کاری پہ سوچتا ہوں
وہ بزم ہستی سے جاچکا ہے میں اس کی فرقت میں بجھ گیا ہوں
       استادمحترم ہرایک سے اس قدرمحبت کرتے تھے کہ مخاطب سمجھتاکہ شایدآپ میرے سے بڑھ کرکسی سے محبت نہیں رکھتے بلکہ سب سے زیادہ محبت مجھ سے کرتے ہیںجب کہ ایسانہیں تھابلکہ وہ ہرایک سے ہی اس قدرمحبت رکھتے کہ محبت والفت کے پیمانے کم پڑجاتے تھے راقم جامعہ محمدیہ سے فراغت کے بعدکچھ عرصہ جامع مسجدتاج میںرہائش پذیررہاجوکہ آپ کی کالونی میں جامعہ محمدیہ للبنات کے ساتھ ملحق ہے ۔حافظ صاحب کوپتہ چلاکہ راقم بیمارہے توبعد ازنماز فجر درس سے فراغت کے بعدسیدھے تاج مسجدمیں پہنچے اورفرمانے لگے مولاناسناہے آپ بیمارہیں کچھ دیربیٹھے دعائے صحت فرمائی اورمیں اٹھنے لگاتوآپ سمجھ گئے کہ شایدضیافت کے لیے اٹھنے لگا ہوں توفرمانے لگے مولانامیراروزہ ہے آپ تشریف رکھیں اورپھردعائیں دیتے ہوئے چل دئیے۔ آپ کی یہی عادات حسنہ تھیں جودل کوموہ لیتی تھیں ۔استادمحترم صرف اسی سے اچھاسلوک نہ کرتے تھے جوان سے اچھاسلوک کرے بلکہ ہرکس وناکس کے ساتھ الفت سے پیش آتے ہیں گویاان کاترجمان شاعرکایہ شعرہے ۔
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نبھاکے جارہاہوں میں
      استادمحترم کے علم وفضل اورمسائل پرگرفت کاہرایک معترف تھاآپ جب بات کرتے پندونصائح کے ساتھ ساتھ مسائل کی گتھیاں بھی سلجھائے جاتے تھے آپ یقینامیدان علم کے شہسوار،علم کے بحربیکراں ،بحث وتمحیص میں زوراآواز،علمی وفنی مسائل پرمکمل دسترس اوراپنے موقف پرٹھوس دلائل رکھنے والے تھے ۔راقم الحروف کوبھی آپ کاشرف تلمذحاصل ہے ۔بلکہ اس سے بڑھ کرمیں اس بات کوبھی خوش قسمتی تصورکرتاہوں کہ حافظ صاحب کے بڑے بیٹے عبدالرحمن ثانی صاحب بھی راقم کے استادمحترم ہیں میں نے ان سے جامعہ الدعوة الاسلامیہ مرید کے میں چندابتدائی اسباق پڑھے تھے ۔اورحافظ صاحب کاچھوٹابیٹاراقم کاشاگردرشیدہے جوجامعہ اسلامیہ سلفیہ ماڈل ٹاؤن میں  زیرتعلیم ہے ۔علاوہ ازیں راقم کویہ اعزازبھی حاصل ہے کہ آپ جوہرسال تفسیرپڑھانے سے قبل طلباء کواصول تفسیرپرجومعلومات نوٹ کرواتے تھے انہیں آپ کی اجازت کے ساتھ جمع کرکے مکتبہ نعمانیہ کودیاجوآج کل'' مرأة التفسیر''کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے ۔
      آپ طلباء سے انتہائی سے الفت ومحبت رکھتے تھے انہیں قوم کامعماراورمستقبل کاروشن منارہ قراردیتے تھے ۔دوران تعلیم طلباء سے کوئی ایسی بات ہوجاتی جوگستاخانہ ہوتی توبڑی خندہ پیشانی سے اسے ٹال دیتے ۔اورجب طلباء بھی آپ کے پاس کسی کام کے سلسلہ میں گھرجاتے توضیافت کیے بغیرواپس نہیں لوٹاتے تھے ۔
      استادمحترم علم وفن میںایک متبحرعالم اورعلمی دنیامیںشہرہ عام رکھنے کے باوجوداپنے نام  کے ساتھ شیخ ،فضیلۃالشیخ ،یاشیخ الحدیث وغیرہ کالقب لگاناپسندنہیں کرتے تھے اورجوکوئی آپ کے بارے میں ایسے الفاظ لکھ دیتاتواس سے سخت ناراض ہوتے اورایسے پروگرام میں شامل ہی نہ ہوتے جس کے اشتہارمیں ایسے القابات لکھے ہوتے گویاآپ نہایت سادگی کوپسندکرتے تھے ۔
      چنددن قبل قاری احسا ن اللہ اولکھ صاحب کی والدہ محترمہ انتقال فرماگئیں (اللہ ان پررحمت فرمائے اورجنت میں اونچامقام عطاء فرمائے )ان کی نماز جنازہ کے لیے احمدمحمودسلفی ،مولانارحمت اللہ شاکرصاحب اورقاری عبداللہ صاحب کی رفاقت میںسفرکیاتوقاری صاحب نے حافظ صاحب کے متعلق چندباتیں بتائیں وہ فرمانے لگے کہ ہم دوران حفظ حافظ صاحب سے جامع مسجدقدس میں حدیثیں پڑھا کرتے تھے آپ ہربدھ نماز عصرکے بعدبلیک بورڈ پرحدیثیں لکھ کرہمیں پڑھایاکرتے تھے اورپھرطلباء آ پ کی موجودگی میںوہ حدیثیں مختلف نمازوں کے بعدنمازیوں کوسنایاکرتے تھے ۔نیز انہوں نے فرمایاکہ حافظ صاحب کے کچھ عزیزحافظ آبادمیںرہائش پذیرہیں حافظ صاحب ان کے اصرارپروہاں  ان سے ملنے گئے ۔تومسجدمیںدرس بھی ارشادفرمایالوگ بہت خوش ہوئے کہ آج حافظ صاحب ہمارے پاس تشریف لائے ہیں درس کے بعدگاؤں کاچودھری کہنے لگاناشتہ آج ہم کروائیں گے بتائیں آپ کیاکھائیں گے یاپسندکرتے ہیں ؟اتنے میں ایک عقیدت مندسادہ لوح  انسان ہاتھ میں ایک چائے کاپیالہ اورایک ہاتھ میں دوتین رس(پاپے)اٹھائے آیااورکہنے لگاحافظ صاحب ناشتہ کریں چودھری دیکھ کرکہنے لگا''اُوپچھ تے لیناسی جھلیاں والے ای کم کیتے ای ۔''توحافظ صاحب فرمانے لگے''جھلیاںوالے نہیں پیغمبراں والے کم کیتے ای ۔''اورآپ نے ناشتہ فرمایاگویاآپ کااشارہ ابراہیم  علیہ السلام کی ضیافت کی طرف تھا کہ جب ان کے پاس مہمان آئے توابراہیم علیہ السلام  ٹھنڈے گرم اورکیاکھاناپیناکے تکلفات کے چکرمیں نہیںپڑے بلکہ فوراگائے کابچھڑابھون کرضیافت میں پیش کردیااللہ تعالیٰ نے اس کوکچھ یوں بیان فرمایاہے :
(ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ ِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ٭ ِإذْ دَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَالُوا سَلَاماً قَالَ سَلَام قَوْم مُّنکَرُونَ ٭ فَرَاغَ ِلَی أَہْلِہِ فَجَاء  بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ  ٭ فَقَرَّبَہُ ِإلَیْہِمْ قَالَ أَلَا تَأْکُلُونَ ٭  فَأَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوہُ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ ٭  فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُہُ فِیْ صَرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوز عَقِیْم ٭  قَالُوا کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکِ ِإنَّہُ ہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ ٭)    سورةالذاریت۔(٢٥١۔٣٠)
 ''کیا تجھے ابراھیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟ وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا ،ابراھیم نے جواب میں سلام دیا(اور کہا یہ تو اجنبی)لوگ ہیں۔پھر چپ چاپ جلدی جلدی اپنے گھروالوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے کاگوشت لائے اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں؟پھر تودل ہی دل میں ان سے خوفزدہ ہوگئے۔انہوںنے کہا آپ خوف نہ کیجیے۔اورانہوں نے اس(حضرت ابراھیم)کو ایک علم والے کی خوشخبری دی پس ان کی بیوی آگے بڑھی اورحیرت میں آکراپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا میںتو بڑھیا ہوں اور ساتھ بانجھ ہوں۔انہوں نے کہا ہاںتیرے پرور دگارنے اسی طرح فرمایا ہے بیشک وہ حکیم و علیم  ہے''
انہی آیات کی روشنی میں آپ بہت زیادہ مہمان نواز تھے آپ سے ملنے عموما آپ کی ضیافت سے محروم نہیں رہتا تھا۔
       استاد محترم یہاں کئی دوسرے علوم وفنون میں علمی وثوق ورسوخ رکھتے تھے وہاں انہیںقافیہ بندی ،سجع اور شاعری سے بھی کافی حد تک لگاؤ تھا ۔بسا اوقات باتوں باتوں میں کئی سجع کے قلابے جوڑ دیتے مثلا ان کی چند یہ باتیں مشہور تھیں۔
١…اگر کوئی نصیحت طلب کرتا تو فرماتے۔اِتَّبِعُوْا مَا أنْزِلَ لَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہِ أوْلِیَاء:تین چیزیں قرآن وسنت اور کتاب وحکمت کے مطابق بنا لو
صوت وشکل
قول وعمل
فکر وعقل
 فلاح پاؤ گے،کامیاب ہو جاؤ گے۔
٢…ہر بات…ہر وقت …ہرآدمی کو سمجھ نہیں آتی۔
٣۔جب صاحب صحیح بخاری کا نام ذکر کرتے تو فرماتے ۔امام بخاری … رحمہ اللہ الباری…
٤…اسی طرح خطوط کا جواب دیتے وقت بھی جب کسی کا نام لکھتے تو عموما نام کی مناسبت سے اللہ کے صفاتی نام کو ساتھ ملا دیتے جس سے نام لینے کے ساتھ دعا بھی ہو جاتی جیسے بشیر کا نام آیا تو کہہ دیا …بشیر رحمہ اللہ العلیم الخبیر…وغیرہ
گفتگو میں انقلابی بانکپن

خامہء معجز رقم تلوار تھا
بو الکلام آزاد کے الفاظ میں

ذہن اسکا معدن افکار تھا
نعرہء تکبیر کی للکار تھا

شہسوارِ عرصہء پیکار تھا
قرن اول کی روایت کا امیں

ذوالفقار حیدر کرار تھا
گردش دوراں سے ہوکر بے نیاز

لشکر اسلام کی تلوار تھا
خوف غیر اللہ تھا اس پر حرام

دعوتِ قربانی وایثار تھا
کافی عرصہ کی بات ہے کہ حافظ صاحب کے ہاتھ عرب کے کسی عالم کی کتاب لگی جس میں عرب عالم دین نے اپنے چند اساتذہ کی سوانح عمری عربی اشعار کی صورت میں لکھی تھی ۔اسے دیکھ کرحافظ صاحب نے بھی اپنے دو اُستادوں شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث والتفسیر محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی مکمل سوانح عمری اشعار میں لکھ کر [مسجد مکرم کے مسؤل مکتب محمد یحییٰ طاہر جو اُن دنوں عمرے پر جا رہے تھے کے ہاتھ عبد الستار ابو تراب صاحب کے ذریعے] ان تک سعودی عرب پہنچائیں کہ آئیندہ جب آپ اس کتاب کو پرنٹ کریں تو ہمارے دو استادوںکو بھی اس کتاب میں شامل فرمائیں ۔
 شیخ الحدیث والتفسیرمحمد محدث گوندلوی  رحمه الله  کی حالات زندگی کو ایک سو پچاس(١٥٠) اشعار میں مرتب فرمایا۔ میں ان کے متعلق حافظ صاحب کے لکھے ہوئے چند اشعار آپ کی نظر کرتا ہوں۔
فَلَقَدْ تَوَلَّدَ شَيْخُنَا عَلَمُ الزَّمَنْ
اِبْنٌ لِفَضْلِ الدِّيْنِ فِيْ رَمَضَانِ
يَوْمَ الْخَمِيْسِ بِعَامِ خَمْسٍ بَعْدَ عَشْ
رِ فَالثَّلَاثِ مِئِي لَاَ لْفِ ثَانِي
وَاسْمُ الْاَبِ الأعْلَي لَهُ فَبَهَاءُ دِيْ
نٍ مُحْکَمٍ مُتَنَزَّلِ رَبَّانِي
وَاسْمٌ لَشَيْخِيْ اَعْظَمٌ حَقَّا اَتَي
قَدْ کَانَ اَعْظَمَ وَالْبَهَاءَ الدَّانِي
..................
فَوَفَاةُ شَيْخٍ لِيْ أتَتْهُ وَلَا عَجَبَ
فَالْمَوْتُ مَقْضِيٌّ لَدَي الْحَنَان
خَمْسَا مِنَ السَّنَوَاتِ بَعْدَ الْعَشْرِ وَالْ
أرْبَعْم مِيءٍ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَان
وَلَقَدْ أتَي الدُّنْيَا بِشَهْرِ ذِيْ صِيَا
مِ وَانْقَضَي بِصِيَامِهِ اِخْوَانِي
فَلَرَحْمَةٌ مِنْ رَبِّنَا تَتْرَي عَلي
شَيْخٍ لَنَا فَاِمَامَنَا الرَّبَانِي
                                                                                                            تفہیم القاری (٣٤١۔٥٠)
 شیخ الحدیث والتفسیر محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانیaکی حالات زندگی کوچونسٹھ(٦٤ ) اشعار میں مرتب فرمایا۔ میں ان میں سے چند اشعار آپ کی نظر کرتا ہوں۔
شَيْخِيْ ابُوْ الطَّيِّبِ عَطَاءُ رَبٍّ لَنَا

فَذَا حَنِيْفٌ جَلَا اَسْديٰ لَهُ مِنَنَا
رَبٌّ لَنَا ذُوْ الْعُليٰ وَشَيْخُنَا ابْنٌ لِصَدْ

رِ الدِّيْنِ حِبِّي حُسَيْنٌ فَالْمِيَانِ حَنَا
تَوَلَّدَ الشَّيْخُ لِيْ بِقَرْيَةٍ قَدْ دَعَوْ

هَا فُوْجَيَانَ الَامَرْ تَسَرْ بِهِنْدِعَنَا
فِيْ عَامِ سَبْعٍ وَّعِشْرِيْنَ الَّذِيْ قَدْ يَکُوْ

نُ بَعْدَ اَلْفٍ اَخِيْ فَابْعُدْ لَنَا شَجَنَا


تُوُفِّيَ الشَّيْخُ لِيْ عَامَ الثَّمَانِ الْحَزَنْ

فَاَرْبَعٍ بَعْدَ اَلْفٍ صَاحِ فَارَقَنَا
صَلّٰي عَلَيْهِ الرِّجَالُ خَلْفَ شَيْخٍ لَّنَا

يَحْييٰ لَهُ اسْمٌ اَخِيْ مَازَالَ يُبْلِغُنَا

                 الاعتصام، ا شاعت خاص ،محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمه الله (ص١١٨٨۔١١٩١)

کچھ عرصہ کی بات ہے کہ ايک رات رانا نثار بھائی(گوجرانوالہ) نے مجھے فون کيا کہ گاؤں ميں ہمارے ايک عزيز کا بچہ  پيدا ہوتے ہی فوت ہو گےا ہے،گھر والے کہہ رہے ہيں کہ اس کی نماز جنازہ نہيں پڑھنا چاہئے اور قبرستان ميں بھی دفن کرنا ضروری نہيں، ميں حافظ صاحب کو فون کر رہا ہوں وہ کسی وجہ سے اٹھا نہيں رہے يا پھر سو گئے ہيں آپ بتائےں اس کا کيا مسئلہ ہے۔؟ميں نے عرض کيا کہ نماز جنازہ فرض نہيں ہے البتہ پڑھ لی جائے تو بہتر ہے اور ويسے بھی مسلمان کے گھر پيدا ہونے والے بچے کی یہی اک نشانی ہے کہ ہم اس کا نماز جنازہ پڑھيں،اگرچہ اسے ضرورت نہيں ليکن پڑھنے سے بہرحال ہميں تو ثواب ملے گا، تو بھائی نثار نے فون بند کر ديا ،تھوڑی دير گزری تو پھر فون آيا اور فرمانے لگے کہ لوگ کہتے ہيں کہ حافظ صاحب کہتے ہيں کہ ايسے بچے کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے ميں نے عرض کی کہ آپ کو جو کہا ہے آپ کريں صبح حافظ صاحب سے ميں خود پوچھ کر بھی بتا دوں گا۔اگلے روز ميں نے حافظ صاحب کو کال کر کے مسئلہ دريافت کياتو آپ نے ميری تصديق فرمائی ميں نے عرض کيا کہ کچھ لوگ توايسےکہہ رہے تھے تو حافظ صاحب فرمانے لگے لوگ تو يہ بھی کہتے ہيں کہ حاٖفظ عبد المنان نے کہا ہے کہ بڑے قبرستان (گوجرانوالہ) ميں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبریں ہیں حالانکہ میں نے ایسا نہیں کہا تو کیا آپ مان لیں گے ''پھر فرمانے لگے۔
( ٰۤیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَہَالةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْن)(الحجرات)
''مومنو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کونادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔ ''
اس موضوع پر حافظ صاحب نے مفصل بیان بھی فرمایا ہے (خطبات نورپوری میں)جس کا اےک اقتباس میں آپ کی نظر کرتا ہوں تاکہ مسئلہ بھی واضح ہو جائے ۔
''بچے کو غسل اورکفن بھی اسی طرح دیا جائے گا جس طرح بڑے کوغسل اور کفن دیا جاتا ہے۔جس طرح بڑی میت کو قبرستان میں قبر کھود کر دفن کیا جاتا ہے اسی طرح بچے کو بھی قبرستان میں قبر کھود کردفنایا جائے گا۔البتہ جو بچہ فوت شدہ پیدا ہوا ہے یا پیدا ہوتے ہی فوت ہو گیا ہے۔تو اس کی نماز جنازہ فرض نہیں۔اگر اس کی نماز جنازہ پڑھ لی جائے تو ثواب ہے بہتر ہے اگر نہ پڑھی جائے بغیر پڑھے دفن کر دیا جائے تو آدمی گناہ گار نہیں ہوگا۔رسول کریم ا کا فرمان ہے۔ترمذی میں موجود ہے: ((وَالصَّبِیّ لَا یُصَلّٰی عَلَیْہِ حَتَّی یَسْتَھِلَّ))ترمذی ( ٥٣٢)بچہ چیخ مارے تو پھر اس کا جنازہ پڑھ لیا جائے گا اور اگر چیخ نہیں مارتا دوسرے لفظوں میں یہ سمجھو کہ وہ مردہ ہی پیدا ہو اہے' پھر اس کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔دوسری حدیث ہے یہ بھی ترمذی میں ہے۔رسول اللہ ا فرماتے ہیں:((وَالسِّقْطُ یُصَلّٰی عَلَیْہِ))''فوت شدہ بچے کا جنازہ پڑھا جائے۔''ابوداود(٣١٨٠)و ترمذی(١٠٣١) ان دونوں حدیثوں کو ملا کر مطلب یہ نکلتا ہے کہ فوت شدہ بچے کی نماز جنازہ فرض نہیں۔پڑھ لو گے تو اجر اور ثواب ہے۔اگر نمازجنازہ کے بغیر بھی دفنا دیا جائے تو درست ہے۔اہل اسلام گناہ گار نہیں ہوں گے۔محدث دوراں' فقیہ زمان'شیخ البانی ﷲ نے جنازہ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔بڑی جامع کتا ب ہے۔صحیح صحیح روایات اس میں انہوں نے درج کی ہیں' اس کا نام ہے ''احکـام الجـنائـز''۔مفصل بھی ہے اور اس کا خلاصہ بھی انہوں نے خود نکالا ہے۔اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوگیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے حدیث بیان کی ہے۔کہ نبی ا نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔جبکہ ان کی عمر ١٨ماہ کے قریب تھی۔نماز جنازہ پڑھنے کے بغیر ہی ان کو دفنا دیا تھا۔ ابوداود(٣١٨٧)اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ اگر بچہ سال یا چھ ماہ کا ہے تو اس کو نماز جنازہ پڑھنے کے بغیر دفنا دیا جائے تو کوئی حرج اور گناہ والی بات نہیں۔''
٨ اپریل٢٠١٢ء کو میری ملاقات بورے والا کے معروف بزرگ عالم دےن سے انہی کے شہر میں ہوئی میں نے عرض کیا کہ آپ حافظ عبدا لمنان نورپوری
 رحمہ اللہ کے بارے کیا فرماتے ہیں۔؟ تو فرمانے لگے وہ میرے ساتھیوں میں سے نہیں تھے میرے ساتھیوں میں تو مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اور مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ وغیرہ تھے لیکن حافظ عبدا لمنان نورپوری رحمہ اللہ ایک بار مجھے ملنے یہاں آئے تھے میں نے ان میں اہل علم اور علماء والی صفات کو پایا تھا۔اللہ ان پر رحمت فرمائے۔
          حافظ صاحب رحمہ اللہ ایک جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے ، وہ اپنی ذات میں انجمن تھے ، انکے محامدو محاسن کا بحر بیکراں اوراق کے کوزہ میں نہیں سمویا جاسکتا ۔ لہذا میں  ان اشعار سے اپنی معروضات کو ختم کرتا ہوں :
بہت کچھ سیکھتے تھے اس جہاں کے رہنما اس سے
ہم ایسوں کو ملی ہے ابن حجروحزم کی ادا اس سے
بلاغت اس کے خامہ سے اڑانیں لے کے دوبالا
فصاحت گفتگو کے پیچ وخم میں کیمیا اس سے
حکایت ہوگئی تاریخ قال وعن شہ سرخی
روایت بن گیا ہنگامہء مہر و وفا اس سے
سکھائے اس نے میخواروں کو آداب قدح نوشی
سبق لیتے رہے زہد و ورع کا پارسا اس سے
گجردم قاصدِ فرخندہ پے نے یہ خبر دی ہے
خدا ہے اس سے راضی خوش ہے محبوب خدا اس سے


* ملون الفاظ  محمد رفیق طاہر کی طرف سے اضافہ ہیں