الأحد، 27 مايو 2012

نمازجنازہ کا آنکھوں ديکھا حال



نمازجنازہ کا آنکھوں ديکھا حال


تحرير : محمد عظيم حاصل پوری
تحرير میں کہاں سمٹتے ہیں دلوں کے درد
يونہی دل کو بہلا رہے ہیں ذرا کاغذوں کےساتھ

جب یہ خبرچلی کہ محدث العصرحافظ عبدالمنان نورپوری اس دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں اناللہ واناالیہ راجعون جہاں جہاں یہ المناک خبرپہنچی وہاں وہاں سے لوگ جو پہنچ سکتے تھے انہوں نے محدث نورپوری کی محبت میں جوصرف رضاء الہٰی کی خاطرتھی آخری دیداراورآخری حق اداکرنے کی خاطررخت سفرباندھ لیاملک کے اطراف واکناف سے یہ قافلے چلے جن کی تعدادکاتعین کرنامشکل ہے ان سب کی منزل ومقصدایک تھا۔کہ برلب جی ٹی روڈ متصل جامعہ محمدیہ جناح پارک سرفرازکالونی جہاں حضرت محدث نورپوری  رحمہ اللہ کاآخری حق اداکیاجاناتھا۔امام احمدبن حنبل  رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے کہ:'' ہمارے اورغیروں کے جنازے ہمارے اوران کے درمیان واضح فرق ہیں ''یہ خدائی قانون ہے وہ جس انسا ن سے جتنی محبت کرتاہے اس کے لیے لوگوں کے دلوںمیں بھی اتنی محبت ڈال دیتاہے پھرلوگ پروانہ وارٹوٹ پڑتے ہیں ۔
اس روئے زمین پرصرف علماء کاایک گروہ ایساہے جن کے جنازوں میں حاضرین کی تعدادبکثرت ہوتی ہے اوریہ تعدادبغیرکسی لالچ اورطمع کے حاضرہوتی ہے ۔اسی چیزکودیکھتے ہوئے جناح پارک میں جنازے کاپروگرام بنایاگیا۔جہاں کثیرتعدادمیں لوگوں کی آمدیقینی ہووہاں انتظام وانصرام کاکیاجانابھی لازمی امرہے لہذاحالات کودیکھتے ہوئے سیکورٹی کی ذمہ داری جماعۃ الدعوۃ کے کارکان کے سپردکی گئی تاکہ ہرقسم کی بدنظمی اورہٹوبچوکے شورسے بچاجاسکے ۔
جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان نے علی الصبح ہی جنازے کے انتظامات کرنے شروع کردےے تمام پارک میں چونے سے صفیں لگائیں ،لاؤڈسپیکرکابندوبست کیا،پارک کے تین اطراف میں موجودگیٹوں پرسیکورٹی اہل کارکھڑے کیے اورپھرحافظ صاحب کے آخری دیدارکے لیے بہترین سیکورٹی کاانتظام کیا۔ ایک بات جوعام بڑے جنازوں میں ہوتی ہے کہ فوت ہونے والی شخصیت کے فضائل ومناقب جنازے کے موقع پربیان کیے جاتے ہیں تولواحقین نے یہ فیصلہ کیاحافظ صاحب کے جناز ے میں کوئی ایساکام نہ کیاجائے توجووہ خوداپنی دنیاوی زندگی میں پسندنہیں کیاکرتے تھے ۔
کتنے ہی ایسے جنازے دیکھے جن میں حضرت محدث نورپوری شریک ہوئے پھرآپ کووہاں اظہارخیال کی درخواست بھی کی گئی لیکن آپ نے کبھی اپنے تاثرات بیان نہیں کیے ۔اسی بات کومدنظررکھتے ہوئے سٹیج کی ذمہ داری بھی جماعۃ الدعوۃ کے ذمہ داران کواس شرط پرسونپی گئی کہ کوئی تقریراورکوئی بیان نہیں ہوگااورپھرایساہی ہوا۔
ایک اورقابل ذکربات کہ محدث نورپوری  رحمہ اللہ نے کبھی اپنی زندگی میں تصویربنائی اورنہ ہی ویڈیوپھریہ بھی فیصلہ کیاگیاکہ عام جنازوںکی طرح آپ کے جناز ے میں تصویرنہیں بنائی جائے گی اورنہ ہی ویڈیو،جس کے لیے جگہ جگہ یہ بینرز لکھ کرلگادئےے گئے کہ'' حضرت حافظ صاحب کے چہرے کی تصویراورویڈیوبنانامنع ہے'' اورپھراس پربھی سختی کے ساتھ عمل کروایاگیا۔
جوں جوں جنازے کا وقت قریب ہوتاجارہا تھا ملک کے اطراف واکناف سے قافلے پہنچناشروع ہوگئے تھے۔محدث نورپوری  رحمہ اللہ کے جسدخاکی کونماز عصرسے قبل ہی تغسیل وتکفین کے بعدجنازے کی جگہ جناح پارک میں پہنچادیاگیاتھانما زسے قبل بہت سے لوگوں نے حضرت محدث نورپوری  رحمہ اللہ کاآخری دیدارکرلیا۔دیدارکرنے والے سب یہی گواہی دے رہے تھے کہ وفات کے دن آپ کے چہرے کاحسن زندگی کے حسن سے کہیں زیادہ تھا۔
المختصرنماز عصرکاوقت ہوانماز عصراداکی گئی۔نما زکے لیے علماء ،طلباء ،شیوخ الحدیث اورعوام کاٹھاٹھیں مارتاسمندرپارک کی طرف امنڈآیا،جس میں بلاتفریق تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین ،امراء اورکارکنان بھی شامل تھے ۔جن کے ناموں کی فہرست بہت لمبی ہے ۔جس سے پارک میں کیے گئے تمام ترانتظامات کم پڑگئے ۔پارک اپنی وسعت کے باوجودتنگ پڑ گیا۔اگلی صفوںمیں موجودلوگ جب پیچھے موجودلوگوں کی آخری صف دیکھنے کی کوشش کرتے توایسا نہ کر پاتے۔
پارک کے دونوں اطراف میں لنک روڈ،جامعہ محمدیہ کی وسیع گراؤنڈ،مرکزابن عباس اوربریلوی مسلک کی مسجدعائشہ اورپارک کے مشرق کی جانب لنک روڈ،اورجی ٹی روڈکے پیچھے تک ان لوگوں کاہجوم تھا۔جو آپ کو خراج تحسین پیش کرنے آئے ہوئے تھے۔
لوگوں کی محبت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ کتنے ایسے افرادجناز ے میں شرکت کے لیے جن کی ٹانگیں ان کابوجھ برداشت نہیں کرسکتی تھیں،کتنے صاحب فراش لوگ جن کے لیے چلناپھرنامحال تھاجنہیں وہیل چیرپربٹھاکرجناز ے میں شرکت کے لیے لایاگیاتھا۔شیخ الحدیث والتفیسرحضرت مولاناثناء اللہ مدنی جنہیں صحت اتنی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ سفرکریں آپ کے جناز ے میں شرکت کے لیے لاہورسے تشریف لائے ۔
جنازہ کون پڑھائے گا۔؟ سارا دن یہی سوال لوگوں کی زبان زدعام تھاجوں جوں سورج ڈھل رہا تھا لوگوں کا تجسس بڑھ رہا تھا کوئی کہتا کہ یہ جنازہ امیر مرکزی جمعیت حضرت ساجد میر صاحب پڑھائیں گے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ نہیں امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ محمد سعید صاحب پرھائیں،کوئی کسی شخصیت کا نام لےتا تو کوئی کسی کاہر کوئی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔مگر لواحقین نے اس معاملہ کو اپنے دل میں مخفی رکھا جونہی گھڑی کی سوئیاں حرکت کرتے ہوئے چارکے ہندسے پرپہنچیں تومحدث نورپوری رحمہ اللہ کے دیرینہ ساتھی شیخ الحدیث والتفسیرحافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ  کودعوت دی گئی کہ وہ امامت کے فرائض سرانجام دینے کے لیے آگے تشریف لے آئیں ۔ مولانا عبد الوحید ساجد صاحب اور مولانا عبد الرحمن ساجد صاحب اس اعتبار سے قابل داد ہیں کہ انہوں نے اس جنازے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایا ۔
حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب نے بھرائی ہوئی آوازمیں اللہ اکبرکہتے ہوئے نماز جنازہ شروع کی ہرطرف سے آہوں اورسسکیوں کی آوازیں بلندہوناشروع ہوگئیں سارامجمع اشکباراورآبدیدہ ہوکرمحدث نورپوری کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کررہاتھا۔
مردتومردعورتوں کی ایک کثیرتعدادگھروں کی چھتوں پرموجوداس روح پرورمنظرکودیکھ رہی تھی اوراطلاعات کے مطابق بہت سی عورتوں نے پارک کی متصل مساجدمیں جنازے میں شرکت بھی کی ۔
جونہی نمازجنازہ سے فارغ ہوئے توآخری دیدارکے لیے لوگ بیتاب نظرآئے ہرایک اس کوشش میں تھاکہ وہ آخری دیدارکرلے ۔وقت کی کمی کے باعث بہت سے لوگ یہ حسرت لیے واپس لوٹ آئے ۔پہلے جنازے کے بعدپھرلوگوں کی مسلسل آمدکی وجہ سے دوبارہ پھرنماز جنازہ پڑھائی گئی۔
عام طورپرایساہوتاہے لوگ جنازہ پڑھنے کے بعدواپسی کارخ کرتے ہیں لیکن یہاںمعاملہ اس سے کہیں مختلف تھاحاضرین کی کثیرتعدادقبرپردعا کے لیے ہاشمی کالونی کے قبرستان میں بھی پہنچی ۔دفن کے بعداعلان ہواکہ قبرپردعاکے لیے حافظ اسعدمحمودسلفی صاحب آگے تشریف لے آئیں ۔دعا شروع ہوئی ایک بارپھرآہوں اورسسکیوں کی آوازوں نے قبرستان کو گھیر لیا، خودحافظ صاحب کی ہچکی بندھ گئی ایک عجیب سماں تھاکہ لوگ اپنے پیارے رب کے حضوردعاؤں اورالتجاؤں کے ساتھ حضرت حافظ صاحب کو رخصت کررہے تھے ۔
ابھی دعا سے فارغ ہوئے ہی تھے اطلاع پہنچی کہ کچھ لوگ کویت سے محدث نورپوری  رحمہ اللہ کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے لیکن وہ بروقت نہ پہنچ سکے چنانچہ پھرانہوں نے قبرپرہی محدث نورپوری کاجنازہ پڑھااورانکے ساتھ بہت سے وہ لوگ بھی شامل ہوگئے جوملک کے دوردراز علاقوں سے آئے تھے اورجنازے میں شریک نہیں ہوسکے تھے ۔
اللھم اغفروارحمہ وادخلہ الجنۃ الفردوس آمین یارب العالمین
جنازے میں شریک ہونے والے افرادچونکہ دوردرازکے سفرکرکے آئے تھے اس لیے انتظامیہ جامعہ محمدیہ نے ان کے لیے جامعہ محمدیہ میں ہی کھانے کابندوبست بھی کیا۔آخرمیں دعا ء گوہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام بھائیوں اوربزرگوں کی محنت کوقبول فرمائے جنہوں نے حافظ صاحب کو الوداع کرتے وقت احسن انتظامات کئے اور آنے والے احباب کو تسلی وتشفی کے ساتھ ساتھ آرام دہ ماحول اور ضیافت کا اہتمام کیا ۔ آمین




ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق