الجمعة، 27 أبريل 2012

اک اور شمع بجھ گئی : استاذی المکرم :: حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ




اک اورشمع بجھ گئی
جو بادہ کش تھے پرانے اٹھے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
                              تحریر…:محمد عظیم حاصل پوری (تنقیح واضافہ: محمدرفیق طاہر) *

    چارربیع الثانی کی رات راقم پھوپھی زادبھائی خالدکی وفات کی خبرسن کراپنے اہل وعیال کے ساتھ حاصل پور کی طرف محوسفرتھا،رات کا سناٹا چار سوچھایا ہوا تھا، صبح صادق ابھی طلوع نہ ہوئی تھی کہ محترم بزرگ دوست محمدنذیرصاحب(جوکہ حافظ صاحب کے دامادجہانگیرکے والدمحترم ہیں ) کی کال آئی صدافسوس کہ میں اسے رسیونہ کرسکااچانک سیل فو ن دیکھاتوواپسی کال کردی، حاجی صاحب کی غم میں ڈوبی ہوئی دھیمی آوازنے افسوس ناک خبرسنائی کہ علمی دنیا کی اک شمع اور بجھ گئی توباوجوداس کے کہ گاڑی اپنی تیزرفتاری سے ہرچیز کوپیچھے چھوڑے جاری تھی مگرمیںگویاایک ہی جگہ رک گیاآنکھوں میں آنسوتیرنے لگے ،چہرہ اداس اوردل افسردہ ہوگیاشایدآج زندگی میں پہلی بارمجھے کسی کے دنیاسے جانے کااتناصدمہ ہواتھا۔
زار زار رو کے دل زار کہہ رہا ہے
افسردہ ہے مغموم ہے دلگیر ہے طاہر
گاڑی اپنے شہرسات بجے پہنچی اورنوبجے وہاں سے واپسی استادمحترم کے آخری حق کواداکرنے کے لیے رخت سفرباندھ لیا،راستے میں بہت سے قافلے اسی حق کواداکرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے اورجلدپہنچنے کی کوشش میں دیکھنے کوملے ۔رفاقت سفرکاکچھ حصہ استادمحترم شیخ عبداللطیف (آف بہاولپور)میاںسہیل احمد،مولاناعبیدالرحمن صاحب ،مولاناعطاء الرحمن صاحب ،محتر م عابدربانی  اورعبدالواحدبھائی کے ساتھ گزارنے کابھی موقعہ ملا۔جامعہ محمدیہ کے پہلومیں پہنچے توپوراپارک تنگی داماں کاشکوہ کرتے نظرآرہاتھا۔ اورہر کوئی رنج والم میں چور یہ کہہ رہاتھا :
یہ کس شہ عالم کو صیاد اجل نے چن لیا
شدت غم سے پریشاں حال ہیں پیرو جواں
کیا خبر آئی کلیجہ تھام کر بیٹھاہوں
مرثیہ لکھوں ، قلم برداشتہ، ہمت کہاں
سوچئے تو لالہ وگل پر قیامت آگئی
آنِ واحد میں ہوئے سرو سمن نالہ کناں
ماضیء مرحوم کی تاریخ کا بابِ عظیم
سرزمین علم وعرفاں کا روشن نشاں
حادثہ کی جانگسل ضربیں رخِ الفاظ پر
سانحہ، ایسا خجستہ گام ہے زورِ بیاں
ظلمت ایام کے چہرے کی رسوائی بڑھی
اور تشنہ رہ گئی دعوت دیں کی داستاں
نماز جنازہ کی امامت کے فرائض آپ کے دیرینہ رفیق حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ نے اداکیے عمومانماز جنازہ کی ادائیگی سے پہلے میت کے فضائل ومناقب پرکچھ نہ کچھ تاثرات پیش کیے جاتے ہیں ۔لیکن لواحقین سے شیخ عبدالوحیداوردیگربزرگوں کاکہناتھاکہ حافظ صاحب جنازوں سے پہلے خطابات کوپسندنہیں فرماتے تھے لہذاکسی کاخطاب نہیں ہوگااورنہ ہی کوئی ویڈیویاتصویربنائے گاکیونکہ آپ اس سے سختی سے منع فرماتے تھے اورفرمایاکرتے تھے جومیری تصویربنائے گاوہ روزقیامت خوداس کاجواب دہ ہوگا۔ دنیامیں کوئی کیمرہ تو انکی تصویر نہ بنا سکا لیکن انکی تصویر ہزاروں سینوں میں پنہاں اور دماغوں میں مستور ہو چکی ہے ۔ اور عقیدت مندوں کا عالم تو یہ ہے کہ
دل میں ہے تصویر یار
جب جی چاہا گردن جھکائی دیکھ لی
جنازے کی ادائیگی کے بعدآخری دیدارکے لیے لوگوں کاہجوم اورعقیدت مندوں کی دھکم پیل دیکھی نہ جاتی تھی غروب آفتاب کے ڈرسے جلدآپ کے جسدخاکی کواٹھالیاگیاجس کی وجہ سے آپ کے بہت سے محب آپ کاچہرہ نہ دیکھ سکے ،مجھے قاری احسان اللہ اولکھ صاحب نے بتایاکہ ہم نماز  جنازہ سے پہلے حافظ صاحب کے گھرپہنچے، گھرمیں بہت ہجوم تھاآپ کاجسدخاکی آپ کے گھرکے اندرونی کمرے میں تھامیں حافظ اسعدمحمودسلفی صاحب کوساتھ لے کرآپ کی زیارت کے لیے آگے بڑھااورکہاکہ حافظ صاحب جی بھرکراس جنتی انسان کادیدارکرلیجئے ۔آپ کاچہرہ نکھراہواتھااورمیں دیکھ کربے اختیارکہنے لگاکہ'' آپ توجنتی حوروں کے دلہے بن گئے'' اوریہ یقین ہوگیاکہ آپ کویقینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری دینے کے لیے ملائکہ کہہ رہے ہوں گے :
یاأیتھاالنفس المطمئنة........................
ہاشمی کالونی گوجرانوالہ کے قبرستان کو اس استعارہ حب رحماں کی آخری آرمگاہ ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے                  سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
 اوربعد از تدفین حافظ اسعدمحمودسلفی صاحب قبرپردعا کروانے لگے تورقت آمیزلہجے میں کروائی گئی دعاء نے عجب سماں باندھا کہ جس سے تمام افرادکی آنکھیں بے اختیارآنسوبہارہی تھیں حافظ صاحب فرمارہے تھے کہ میں خوش نصیب ہوں کہ جس کوآپ کی قبرپردعا کی سعادت ملی ہے ۔ (حافظ صاحب مرحوم قبر پر کھڑے ہوکر اجتماعی دعاء کے قائل نہ تھے )
سداان کی ترتبت پہ نازل ہورحمت
میسرہوان کوہراک حق کی  نعمت
قاری عبداللہ (سابق مدرس مسجدمکرم)فرمارہے تھے کہ تدفین کے بعدجب لوگ جامعہ محمدیہ واپس پہنچے توایک بھائی کہہ رہے تھے کہ حافظ صاحب کے متعلق اپنے اپنے تاثرات بھی لکھ کرجائیں ۔توایک بزرگ نے موجودہ تمام لوگوں کی طرف اشارہ کرکے کہایہ تم نہیں دیکھ رہے یہ حافظ صاحب کے تمام جنتی ہونے کے گواہ ہیں چونکہ نبی  صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:أنتم شهداء الله في الأرض
استادمحترم محبت والفت ،شفقت ورافت ،نرمی عفوودرگزر،نہایت سادہ وقناعت پسندفرشتہ صفت انسان تھے ہمیشہ روحوں کومعطرکردینے والی گفتگوکے قائل تھے اخلاق وکردارمیںبے داغ آپ میں خودنمائی وخودستائشی قطعا نہ تھی آپ قرآن مجیدکی اس آیت (سیماھم فی وجوہھم من اثرالسجود)کی عملی تصویرتھے مجھے یادپڑتاہے کہ ہم جامعہ محمدیہ میں چھٹے سال میں تھے کہ ڈی ،جی ،خان سے ایک آدمی آپ کی ملاقات کے لیے آیااورکہنے لگاکہ مجھے حافظ صاحب کے پا س لے چلوہم دوساتھی انہیں لے کرحافظ صاحب کی مسجدمیں گئے کہ نماز کے بعدملاقات ہوجائے گی مہمان کہنے لگاکہ میں نے حافظ صاحب کودیکھانہیں ہے لیکن میں وضوء کرکے دروازے کے سامنے کھڑاہوتاہوں تم دیکھنامیں حافظ صاحب کوپہچان لوں گا کہ یہی حافظ عبدالمنان نورپوری صاحب ہیں پھرایساہی ہواکہ حافظ صاحب تشریف لائے تومہمان اشارہ کرکے کہنے لگاکہ کیا یہی ہیں حافظ صاحب جوسرپرروما ل باندھے آرہے ہیں ہم نے اثبات میں سرہلادئیے ۔یقینااللہ کے ولی عام لوگ میں منفرد اور یکتا ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی مرگ ِ ناگہاں کی ستیزہ کاری پہ سوچتا ہوں
وہ بزم ہستی سے جاچکا ہے میں اس کی فرقت میں بجھ گیا ہوں
       استادمحترم ہرایک سے اس قدرمحبت کرتے تھے کہ مخاطب سمجھتاکہ شایدآپ میرے سے بڑھ کرکسی سے محبت نہیں رکھتے بلکہ سب سے زیادہ محبت مجھ سے کرتے ہیںجب کہ ایسانہیں تھابلکہ وہ ہرایک سے ہی اس قدرمحبت رکھتے کہ محبت والفت کے پیمانے کم پڑجاتے تھے راقم جامعہ محمدیہ سے فراغت کے بعدکچھ عرصہ جامع مسجدتاج میںرہائش پذیررہاجوکہ آپ کی کالونی میں جامعہ محمدیہ للبنات کے ساتھ ملحق ہے ۔حافظ صاحب کوپتہ چلاکہ راقم بیمارہے توبعد ازنماز فجر درس سے فراغت کے بعدسیدھے تاج مسجدمیں پہنچے اورفرمانے لگے مولاناسناہے آپ بیمارہیں کچھ دیربیٹھے دعائے صحت فرمائی اورمیں اٹھنے لگاتوآپ سمجھ گئے کہ شایدضیافت کے لیے اٹھنے لگا ہوں توفرمانے لگے مولانامیراروزہ ہے آپ تشریف رکھیں اورپھردعائیں دیتے ہوئے چل دئیے۔ آپ کی یہی عادات حسنہ تھیں جودل کوموہ لیتی تھیں ۔استادمحترم صرف اسی سے اچھاسلوک نہ کرتے تھے جوان سے اچھاسلوک کرے بلکہ ہرکس وناکس کے ساتھ الفت سے پیش آتے ہیں گویاان کاترجمان شاعرکایہ شعرہے ۔
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نبھاکے جارہاہوں میں
      استادمحترم کے علم وفضل اورمسائل پرگرفت کاہرایک معترف تھاآپ جب بات کرتے پندونصائح کے ساتھ ساتھ مسائل کی گتھیاں بھی سلجھائے جاتے تھے آپ یقینامیدان علم کے شہسوار،علم کے بحربیکراں ،بحث وتمحیص میں زوراآواز،علمی وفنی مسائل پرمکمل دسترس اوراپنے موقف پرٹھوس دلائل رکھنے والے تھے ۔راقم الحروف کوبھی آپ کاشرف تلمذحاصل ہے ۔بلکہ اس سے بڑھ کرمیں اس بات کوبھی خوش قسمتی تصورکرتاہوں کہ حافظ صاحب کے بڑے بیٹے عبدالرحمن ثانی صاحب بھی راقم کے استادمحترم ہیں میں نے ان سے جامعہ الدعوة الاسلامیہ مرید کے میں چندابتدائی اسباق پڑھے تھے ۔اورحافظ صاحب کاچھوٹابیٹاراقم کاشاگردرشیدہے جوجامعہ اسلامیہ سلفیہ ماڈل ٹاؤن میں  زیرتعلیم ہے ۔علاوہ ازیں راقم کویہ اعزازبھی حاصل ہے کہ آپ جوہرسال تفسیرپڑھانے سے قبل طلباء کواصول تفسیرپرجومعلومات نوٹ کرواتے تھے انہیں آپ کی اجازت کے ساتھ جمع کرکے مکتبہ نعمانیہ کودیاجوآج کل'' مرأة التفسیر''کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے ۔
      آپ طلباء سے انتہائی سے الفت ومحبت رکھتے تھے انہیں قوم کامعماراورمستقبل کاروشن منارہ قراردیتے تھے ۔دوران تعلیم طلباء سے کوئی ایسی بات ہوجاتی جوگستاخانہ ہوتی توبڑی خندہ پیشانی سے اسے ٹال دیتے ۔اورجب طلباء بھی آپ کے پاس کسی کام کے سلسلہ میں گھرجاتے توضیافت کیے بغیرواپس نہیں لوٹاتے تھے ۔
      استادمحترم علم وفن میںایک متبحرعالم اورعلمی دنیامیںشہرہ عام رکھنے کے باوجوداپنے نام  کے ساتھ شیخ ،فضیلۃالشیخ ،یاشیخ الحدیث وغیرہ کالقب لگاناپسندنہیں کرتے تھے اورجوکوئی آپ کے بارے میں ایسے الفاظ لکھ دیتاتواس سے سخت ناراض ہوتے اورایسے پروگرام میں شامل ہی نہ ہوتے جس کے اشتہارمیں ایسے القابات لکھے ہوتے گویاآپ نہایت سادگی کوپسندکرتے تھے ۔
      چنددن قبل قاری احسا ن اللہ اولکھ صاحب کی والدہ محترمہ انتقال فرماگئیں (اللہ ان پررحمت فرمائے اورجنت میں اونچامقام عطاء فرمائے )ان کی نماز جنازہ کے لیے احمدمحمودسلفی ،مولانارحمت اللہ شاکرصاحب اورقاری عبداللہ صاحب کی رفاقت میںسفرکیاتوقاری صاحب نے حافظ صاحب کے متعلق چندباتیں بتائیں وہ فرمانے لگے کہ ہم دوران حفظ حافظ صاحب سے جامع مسجدقدس میں حدیثیں پڑھا کرتے تھے آپ ہربدھ نماز عصرکے بعدبلیک بورڈ پرحدیثیں لکھ کرہمیں پڑھایاکرتے تھے اورپھرطلباء آ پ کی موجودگی میںوہ حدیثیں مختلف نمازوں کے بعدنمازیوں کوسنایاکرتے تھے ۔نیز انہوں نے فرمایاکہ حافظ صاحب کے کچھ عزیزحافظ آبادمیںرہائش پذیرہیں حافظ صاحب ان کے اصرارپروہاں  ان سے ملنے گئے ۔تومسجدمیںدرس بھی ارشادفرمایالوگ بہت خوش ہوئے کہ آج حافظ صاحب ہمارے پاس تشریف لائے ہیں درس کے بعدگاؤں کاچودھری کہنے لگاناشتہ آج ہم کروائیں گے بتائیں آپ کیاکھائیں گے یاپسندکرتے ہیں ؟اتنے میں ایک عقیدت مندسادہ لوح  انسان ہاتھ میں ایک چائے کاپیالہ اورایک ہاتھ میں دوتین رس(پاپے)اٹھائے آیااورکہنے لگاحافظ صاحب ناشتہ کریں چودھری دیکھ کرکہنے لگا''اُوپچھ تے لیناسی جھلیاں والے ای کم کیتے ای ۔''توحافظ صاحب فرمانے لگے''جھلیاںوالے نہیں پیغمبراں والے کم کیتے ای ۔''اورآپ نے ناشتہ فرمایاگویاآپ کااشارہ ابراہیم  علیہ السلام کی ضیافت کی طرف تھا کہ جب ان کے پاس مہمان آئے توابراہیم علیہ السلام  ٹھنڈے گرم اورکیاکھاناپیناکے تکلفات کے چکرمیں نہیںپڑے بلکہ فوراگائے کابچھڑابھون کرضیافت میں پیش کردیااللہ تعالیٰ نے اس کوکچھ یوں بیان فرمایاہے :
(ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ ِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ٭ ِإذْ دَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَالُوا سَلَاماً قَالَ سَلَام قَوْم مُّنکَرُونَ ٭ فَرَاغَ ِلَی أَہْلِہِ فَجَاء  بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ  ٭ فَقَرَّبَہُ ِإلَیْہِمْ قَالَ أَلَا تَأْکُلُونَ ٭  فَأَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوہُ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ ٭  فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُہُ فِیْ صَرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوز عَقِیْم ٭  قَالُوا کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکِ ِإنَّہُ ہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ ٭)    سورةالذاریت۔(٢٥١۔٣٠)
 ''کیا تجھے ابراھیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟ وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا ،ابراھیم نے جواب میں سلام دیا(اور کہا یہ تو اجنبی)لوگ ہیں۔پھر چپ چاپ جلدی جلدی اپنے گھروالوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے کاگوشت لائے اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں؟پھر تودل ہی دل میں ان سے خوفزدہ ہوگئے۔انہوںنے کہا آپ خوف نہ کیجیے۔اورانہوں نے اس(حضرت ابراھیم)کو ایک علم والے کی خوشخبری دی پس ان کی بیوی آگے بڑھی اورحیرت میں آکراپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا میںتو بڑھیا ہوں اور ساتھ بانجھ ہوں۔انہوں نے کہا ہاںتیرے پرور دگارنے اسی طرح فرمایا ہے بیشک وہ حکیم و علیم  ہے''
انہی آیات کی روشنی میں آپ بہت زیادہ مہمان نواز تھے آپ سے ملنے عموما آپ کی ضیافت سے محروم نہیں رہتا تھا۔
       استاد محترم یہاں کئی دوسرے علوم وفنون میں علمی وثوق ورسوخ رکھتے تھے وہاں انہیںقافیہ بندی ،سجع اور شاعری سے بھی کافی حد تک لگاؤ تھا ۔بسا اوقات باتوں باتوں میں کئی سجع کے قلابے جوڑ دیتے مثلا ان کی چند یہ باتیں مشہور تھیں۔
١…اگر کوئی نصیحت طلب کرتا تو فرماتے۔اِتَّبِعُوْا مَا أنْزِلَ لَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہِ أوْلِیَاء:تین چیزیں قرآن وسنت اور کتاب وحکمت کے مطابق بنا لو
صوت وشکل
قول وعمل
فکر وعقل
 فلاح پاؤ گے،کامیاب ہو جاؤ گے۔
٢…ہر بات…ہر وقت …ہرآدمی کو سمجھ نہیں آتی۔
٣۔جب صاحب صحیح بخاری کا نام ذکر کرتے تو فرماتے ۔امام بخاری … رحمہ اللہ الباری…
٤…اسی طرح خطوط کا جواب دیتے وقت بھی جب کسی کا نام لکھتے تو عموما نام کی مناسبت سے اللہ کے صفاتی نام کو ساتھ ملا دیتے جس سے نام لینے کے ساتھ دعا بھی ہو جاتی جیسے بشیر کا نام آیا تو کہہ دیا …بشیر رحمہ اللہ العلیم الخبیر…وغیرہ
گفتگو میں انقلابی بانکپن

خامہء معجز رقم تلوار تھا
بو الکلام آزاد کے الفاظ میں

ذہن اسکا معدن افکار تھا
نعرہء تکبیر کی للکار تھا

شہسوارِ عرصہء پیکار تھا
قرن اول کی روایت کا امیں

ذوالفقار حیدر کرار تھا
گردش دوراں سے ہوکر بے نیاز

لشکر اسلام کی تلوار تھا
خوف غیر اللہ تھا اس پر حرام

دعوتِ قربانی وایثار تھا
کافی عرصہ کی بات ہے کہ حافظ صاحب کے ہاتھ عرب کے کسی عالم کی کتاب لگی جس میں عرب عالم دین نے اپنے چند اساتذہ کی سوانح عمری عربی اشعار کی صورت میں لکھی تھی ۔اسے دیکھ کرحافظ صاحب نے بھی اپنے دو اُستادوں شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث والتفسیر محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی مکمل سوانح عمری اشعار میں لکھ کر [مسجد مکرم کے مسؤل مکتب محمد یحییٰ طاہر جو اُن دنوں عمرے پر جا رہے تھے کے ہاتھ عبد الستار ابو تراب صاحب کے ذریعے] ان تک سعودی عرب پہنچائیں کہ آئیندہ جب آپ اس کتاب کو پرنٹ کریں تو ہمارے دو استادوںکو بھی اس کتاب میں شامل فرمائیں ۔
 شیخ الحدیث والتفسیرمحمد محدث گوندلوی  رحمه الله  کی حالات زندگی کو ایک سو پچاس(١٥٠) اشعار میں مرتب فرمایا۔ میں ان کے متعلق حافظ صاحب کے لکھے ہوئے چند اشعار آپ کی نظر کرتا ہوں۔
فَلَقَدْ تَوَلَّدَ شَيْخُنَا عَلَمُ الزَّمَنْ
اِبْنٌ لِفَضْلِ الدِّيْنِ فِيْ رَمَضَانِ
يَوْمَ الْخَمِيْسِ بِعَامِ خَمْسٍ بَعْدَ عَشْ
رِ فَالثَّلَاثِ مِئِي لَاَ لْفِ ثَانِي
وَاسْمُ الْاَبِ الأعْلَي لَهُ فَبَهَاءُ دِيْ
نٍ مُحْکَمٍ مُتَنَزَّلِ رَبَّانِي
وَاسْمٌ لَشَيْخِيْ اَعْظَمٌ حَقَّا اَتَي
قَدْ کَانَ اَعْظَمَ وَالْبَهَاءَ الدَّانِي
..................
فَوَفَاةُ شَيْخٍ لِيْ أتَتْهُ وَلَا عَجَبَ
فَالْمَوْتُ مَقْضِيٌّ لَدَي الْحَنَان
خَمْسَا مِنَ السَّنَوَاتِ بَعْدَ الْعَشْرِ وَالْ
أرْبَعْم مِيءٍ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَان
وَلَقَدْ أتَي الدُّنْيَا بِشَهْرِ ذِيْ صِيَا
مِ وَانْقَضَي بِصِيَامِهِ اِخْوَانِي
فَلَرَحْمَةٌ مِنْ رَبِّنَا تَتْرَي عَلي
شَيْخٍ لَنَا فَاِمَامَنَا الرَّبَانِي
                                                                                                            تفہیم القاری (٣٤١۔٥٠)
 شیخ الحدیث والتفسیر محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانیaکی حالات زندگی کوچونسٹھ(٦٤ ) اشعار میں مرتب فرمایا۔ میں ان میں سے چند اشعار آپ کی نظر کرتا ہوں۔
شَيْخِيْ ابُوْ الطَّيِّبِ عَطَاءُ رَبٍّ لَنَا

فَذَا حَنِيْفٌ جَلَا اَسْديٰ لَهُ مِنَنَا
رَبٌّ لَنَا ذُوْ الْعُليٰ وَشَيْخُنَا ابْنٌ لِصَدْ

رِ الدِّيْنِ حِبِّي حُسَيْنٌ فَالْمِيَانِ حَنَا
تَوَلَّدَ الشَّيْخُ لِيْ بِقَرْيَةٍ قَدْ دَعَوْ

هَا فُوْجَيَانَ الَامَرْ تَسَرْ بِهِنْدِعَنَا
فِيْ عَامِ سَبْعٍ وَّعِشْرِيْنَ الَّذِيْ قَدْ يَکُوْ

نُ بَعْدَ اَلْفٍ اَخِيْ فَابْعُدْ لَنَا شَجَنَا


تُوُفِّيَ الشَّيْخُ لِيْ عَامَ الثَّمَانِ الْحَزَنْ

فَاَرْبَعٍ بَعْدَ اَلْفٍ صَاحِ فَارَقَنَا
صَلّٰي عَلَيْهِ الرِّجَالُ خَلْفَ شَيْخٍ لَّنَا

يَحْييٰ لَهُ اسْمٌ اَخِيْ مَازَالَ يُبْلِغُنَا

                 الاعتصام، ا شاعت خاص ،محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمه الله (ص١١٨٨۔١١٩١)

کچھ عرصہ کی بات ہے کہ ايک رات رانا نثار بھائی(گوجرانوالہ) نے مجھے فون کيا کہ گاؤں ميں ہمارے ايک عزيز کا بچہ  پيدا ہوتے ہی فوت ہو گےا ہے،گھر والے کہہ رہے ہيں کہ اس کی نماز جنازہ نہيں پڑھنا چاہئے اور قبرستان ميں بھی دفن کرنا ضروری نہيں، ميں حافظ صاحب کو فون کر رہا ہوں وہ کسی وجہ سے اٹھا نہيں رہے يا پھر سو گئے ہيں آپ بتائےں اس کا کيا مسئلہ ہے۔؟ميں نے عرض کيا کہ نماز جنازہ فرض نہيں ہے البتہ پڑھ لی جائے تو بہتر ہے اور ويسے بھی مسلمان کے گھر پيدا ہونے والے بچے کی یہی اک نشانی ہے کہ ہم اس کا نماز جنازہ پڑھيں،اگرچہ اسے ضرورت نہيں ليکن پڑھنے سے بہرحال ہميں تو ثواب ملے گا، تو بھائی نثار نے فون بند کر ديا ،تھوڑی دير گزری تو پھر فون آيا اور فرمانے لگے کہ لوگ کہتے ہيں کہ حافظ صاحب کہتے ہيں کہ ايسے بچے کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے ميں نے عرض کی کہ آپ کو جو کہا ہے آپ کريں صبح حافظ صاحب سے ميں خود پوچھ کر بھی بتا دوں گا۔اگلے روز ميں نے حافظ صاحب کو کال کر کے مسئلہ دريافت کياتو آپ نے ميری تصديق فرمائی ميں نے عرض کيا کہ کچھ لوگ توايسےکہہ رہے تھے تو حافظ صاحب فرمانے لگے لوگ تو يہ بھی کہتے ہيں کہ حاٖفظ عبد المنان نے کہا ہے کہ بڑے قبرستان (گوجرانوالہ) ميں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبریں ہیں حالانکہ میں نے ایسا نہیں کہا تو کیا آپ مان لیں گے ''پھر فرمانے لگے۔
( ٰۤیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَہَالةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْن)(الحجرات)
''مومنو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کونادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔ ''
اس موضوع پر حافظ صاحب نے مفصل بیان بھی فرمایا ہے (خطبات نورپوری میں)جس کا اےک اقتباس میں آپ کی نظر کرتا ہوں تاکہ مسئلہ بھی واضح ہو جائے ۔
''بچے کو غسل اورکفن بھی اسی طرح دیا جائے گا جس طرح بڑے کوغسل اور کفن دیا جاتا ہے۔جس طرح بڑی میت کو قبرستان میں قبر کھود کر دفن کیا جاتا ہے اسی طرح بچے کو بھی قبرستان میں قبر کھود کردفنایا جائے گا۔البتہ جو بچہ فوت شدہ پیدا ہوا ہے یا پیدا ہوتے ہی فوت ہو گیا ہے۔تو اس کی نماز جنازہ فرض نہیں۔اگر اس کی نماز جنازہ پڑھ لی جائے تو ثواب ہے بہتر ہے اگر نہ پڑھی جائے بغیر پڑھے دفن کر دیا جائے تو آدمی گناہ گار نہیں ہوگا۔رسول کریم ا کا فرمان ہے۔ترمذی میں موجود ہے: ((وَالصَّبِیّ لَا یُصَلّٰی عَلَیْہِ حَتَّی یَسْتَھِلَّ))ترمذی ( ٥٣٢)بچہ چیخ مارے تو پھر اس کا جنازہ پڑھ لیا جائے گا اور اگر چیخ نہیں مارتا دوسرے لفظوں میں یہ سمجھو کہ وہ مردہ ہی پیدا ہو اہے' پھر اس کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔دوسری حدیث ہے یہ بھی ترمذی میں ہے۔رسول اللہ ا فرماتے ہیں:((وَالسِّقْطُ یُصَلّٰی عَلَیْہِ))''فوت شدہ بچے کا جنازہ پڑھا جائے۔''ابوداود(٣١٨٠)و ترمذی(١٠٣١) ان دونوں حدیثوں کو ملا کر مطلب یہ نکلتا ہے کہ فوت شدہ بچے کی نماز جنازہ فرض نہیں۔پڑھ لو گے تو اجر اور ثواب ہے۔اگر نمازجنازہ کے بغیر بھی دفنا دیا جائے تو درست ہے۔اہل اسلام گناہ گار نہیں ہوں گے۔محدث دوراں' فقیہ زمان'شیخ البانی ﷲ نے جنازہ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔بڑی جامع کتا ب ہے۔صحیح صحیح روایات اس میں انہوں نے درج کی ہیں' اس کا نام ہے ''احکـام الجـنائـز''۔مفصل بھی ہے اور اس کا خلاصہ بھی انہوں نے خود نکالا ہے۔اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوگیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے حدیث بیان کی ہے۔کہ نبی ا نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔جبکہ ان کی عمر ١٨ماہ کے قریب تھی۔نماز جنازہ پڑھنے کے بغیر ہی ان کو دفنا دیا تھا۔ ابوداود(٣١٨٧)اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ اگر بچہ سال یا چھ ماہ کا ہے تو اس کو نماز جنازہ پڑھنے کے بغیر دفنا دیا جائے تو کوئی حرج اور گناہ والی بات نہیں۔''
٨ اپریل٢٠١٢ء کو میری ملاقات بورے والا کے معروف بزرگ عالم دےن سے انہی کے شہر میں ہوئی میں نے عرض کیا کہ آپ حافظ عبدا لمنان نورپوری
 رحمہ اللہ کے بارے کیا فرماتے ہیں۔؟ تو فرمانے لگے وہ میرے ساتھیوں میں سے نہیں تھے میرے ساتھیوں میں تو مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اور مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ وغیرہ تھے لیکن حافظ عبدا لمنان نورپوری رحمہ اللہ ایک بار مجھے ملنے یہاں آئے تھے میں نے ان میں اہل علم اور علماء والی صفات کو پایا تھا۔اللہ ان پر رحمت فرمائے۔
          حافظ صاحب رحمہ اللہ ایک جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے ، وہ اپنی ذات میں انجمن تھے ، انکے محامدو محاسن کا بحر بیکراں اوراق کے کوزہ میں نہیں سمویا جاسکتا ۔ لہذا میں  ان اشعار سے اپنی معروضات کو ختم کرتا ہوں :
بہت کچھ سیکھتے تھے اس جہاں کے رہنما اس سے
ہم ایسوں کو ملی ہے ابن حجروحزم کی ادا اس سے
بلاغت اس کے خامہ سے اڑانیں لے کے دوبالا
فصاحت گفتگو کے پیچ وخم میں کیمیا اس سے
حکایت ہوگئی تاریخ قال وعن شہ سرخی
روایت بن گیا ہنگامہء مہر و وفا اس سے
سکھائے اس نے میخواروں کو آداب قدح نوشی
سبق لیتے رہے زہد و ورع کا پارسا اس سے
گجردم قاصدِ فرخندہ پے نے یہ خبر دی ہے
خدا ہے اس سے راضی خوش ہے محبوب خدا اس سے


* ملون الفاظ  محمد رفیق طاہر کی طرف سے اضافہ ہیں

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق